صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: فتنوں کے بیان میں
The Book of Al-Fitan
21. بَابُ إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ:
21. باب: کوئی شخص لوگوں کے سامنے ایک بات کہے پھر اس کے پاس سے نکل کر دوسری بات کہے (تو یہ دغا بازی ہے)۔
(21) Chapter. If a person says something in the presence of some people and then goes out and says something different..
حدیث نمبر: 7112
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا ابو شهاب، عن عوف، عن ابي المنهال، قال: لما كان ابن زياد ومروان بالشام، ووثب ابن الزبير بمكة، ووثب القراء بالبصرة، فانطلقت مع ابي إلى ابي برزة الاسلمي حتى دخلنا عليه في داره وهو جالس في ظل علية له من قصب، فجلسنا إليه، فانشا ابي يستطعمه الحديث، فقال: يا ابا برزة، الا ترى ما وقع فيه الناس، فاول شيء سمعته تكلم به:" إني احتسبت عند الله اني اصبحت ساخطا على احياء قريش، إنكم يا معشر العرب كنتم على الحال الذي علمتم من الذلة والقلة والضلالة، وإن الله انقذكم بالإسلام وبمحمد صلى الله عليه وسلم حتى بلغ بكم ما ترون وهذه الدنيا التي افسدت بينكم، إن ذاك الذي بالشام والله إن يقاتل إلا على الدنيا، وإن هؤلاء الذين بين اظهركم والله إن يقاتلون إلا على الدنيا، وإن ذاك الذي بمكة والله إن يقاتل إلا على الدنيا".(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ ابْنُ زِيَادٍ وَمَرْوَانُ بِالشَّأْمِ، وَوَثَبَ ابْنُ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ، وَوَثَبَ الْقُرَّاءُ بِالْبَصْرَةِ، فَانْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي إِلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَيْهِ فِي دَارِهِ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ عُلِّيَّةٍ لَهُ مِنْ قَصَبٍ، فَجَلَسْنَا إِلَيْهِ، فَأَنْشَأَ أَبِي يَسْتَطْعِمُهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَرْزَةَ، أَلَا تَرَى مَا وَقَعَ فِيهِ النَّاسُ، فَأَوَّلُ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ تَكَلَّمَ بِهِ:" إِنِّي احْتَسَبْتُ عِنْدَ اللَّهِ أَنِّي أَصْبَحْتُ سَاخِطًا عَلَى أَحْيَاءِ قُرَيْشٍ، إِنَّكُمْ يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ كُنْتُمْ عَلَى الْحَالِ الَّذِي عَلِمْتُمْ مِنَ الذِّلَّةِ وَالْقِلَّةِ وَالضَّلَالَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ أَنْقَذَكُمْ بِالْإِسْلَامِ وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ بِكُمْ مَا تَرَوْنَ وَهَذِهِ الدُّنْيَا الَّتِي أَفْسَدَتْ بَيْنَكُمْ، إِنَّ ذَاكَ الَّذِي بِالشَّأْمِ وَاللَّهِ إِنْ يُقَاتِلُ إِلَّا عَلَى الدُّنْيَا، وَإِنَّ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ وَاللَّهِ إِنْ يُقَاتِلُونَ إِلَّا عَلَى الدُّنْيَا، وَإِنْ ذَاكَ الَّذِي بِمَكَّةَ وَاللَّهِ إِنْ يُقَاتِلُ إِلَّا عَلَى الدُّنْيَا".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شہاب نے بیان کیا، ان سے جوف نے بیان کیا، ان سے ابومنہال نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن زیاد اور مروان شام میں تھے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اور خوارج نے بصرہ میں قبضہ کر لیا تھا تو میں اپنے والد کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ جب ہم ان کے گھر میں ایک کمرہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے جو بانس کا بنا ہوا تھا، ہم ان کے پاس بیٹھ گئے اور میرے والد ان سے بات کرنے لگے اور کہا: اے ابوبرزہ! آپ نہیں دیکھتے لوگ کن باتوں میں آفت اور اختلاف میں الجھ گئے ہیں۔ میں نے ان کی زبان سے سب سے پہلی بات یہ سنی کہ میں جو ان قریش کے لوگوں سے ناراض ہوں تو محض اللہ کی رضا مندی کے لیے، اللہ میرا اجر دینے والا ہے۔ عرب کے لوگو! تم جانتے ہو پہلے تمہارا کیا حال تھا تم گمراہی میں گرفتار تھے، اللہ نے اسلام کے ذریعہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تم کو اس بری حالت سے نجات دی۔ یہاں تک کہ تم اس رتبہ کو پہنچے۔ (دنیا کے حاکم اور سردار بن گئے) پھر اسی دنیا نے تم کو خراب کر دیا۔ دیکھو! یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے یعنی مروان دنیا کے لیے لڑ رہا ہے۔ یہ لوگ جو تمہارے سامنے ہیں۔ (خوارج) واللہ! یہ لوگ صرف دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں اور وہ جو مکہ میں ہے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما، واللہ! وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑ رہا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Al-Minhal: When Ibn Ziyad and Marwan were in Sham and Ibn Az-Zubair took over the authority in Mecca and Qurra' (the Kharijites) revolted in Basra, I went out with my father to Abu Barza Al-Aslami till we entered upon him in his house while he was sitting in the shade of a room built of cane. So we sat with him and my father started talking to him saying, "O Abu Barza! Don't you see in what dilemma the people has fallen?" The first thing heard him saying "I seek reward from Allah for myself because of being angry and scornful at the Quraish tribe. O you Arabs! You know very well that you were in misery and were few in number and misguided, and that Allah has brought you out of all that with Islam and with Muhammad till He brought you to this state (of prosperity and happiness) which you see now; and it is this worldly wealth and pleasures which has caused mischief to appear among you. The one who is in Sham (i.e., Marwan), by Allah, is not fighting except for the sake of worldly gain: and those who are among you, by Allah, are not fighting except for the sake of worldly gain; and that one who is in Mecca (i.e., Ibn Az-Zubair) by Allah, is not fighting except for the sake of worldly gain."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 228


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7112 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7112  
حدیث حاشیہ:

گوشہ نشین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اندرونی فسادات اور باہمی لڑائی کے متعلق یہ نظریہ تھا کہ حق وصداقت کا معیار کفار سے جنگ اور آپس میں امن وسلامتی ہونا چاہیے اسی لیے وہ ان فسادات سے کنارہ کش اور الگ تھلگ رہے۔
سیدنا حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خانہ جنگی میں مبتلا حضرات کے متعلق اپنے بھر پور جذبات کا اظہار کیا۔

ہمارا رجحان یہ ہے کہ اپنی سمجھ کے مطابق یہ حضرات بھی اللہ تعالیٰ کے لیے لڑے اور انھوں نے امت کی بھلائی کو پیش نظر رکھا اگرچہ نتائج کچھ بھی سامنے آئے لیکن ہمیں ان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔
چونکہ ان کے نفوس پاک تھے، اس لیے اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو وہی کام کرتے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہوتے۔

اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں موجود لوگوں پر تنقید فرمائی کہ وہ بظاہر دین کے استحکام اور حق کی نصرت کے لیے لڑتے ہیں، حالانکہ اندرونی طور پر ان کی نیتوں میں فتور ہےاور وہ دنیا طلبی کے لیے لڑتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں سن کر میرے باپ نےکہا:
آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے کسی کو نہیں چھوڑا۔
انھوں نے فرمایا:
مجھے تو آج ان میں خیروبرکت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، ہاں بہت قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔
جنھوں نے دوسروں کے مال سے اپنے پیٹ محفوظ رکھے ہیں اور دوسرے لوگوں کے خون ناحق ان کی گردنوں میں نہیں ہیں۔
(فتح الباري: 92/13)

بہرحال ایسے حالات میں فتنوں سے الگ تھلگ رہنے ہی میں عافیت ہے،خصوصاً وہ فتنے جو نفاق کی پیداوار ہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ جنگ وقتال میں قطعاً حصہ نہیں لینا چاہیے، بالخصوص جب جنگ کی بنیاد ہوس ملک گیری ہو۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7112   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.