(مرفوع) قال ابو بكر: والله لاقاتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، لقاتلتهم على منعها، قال عمر: فوالله ما هو إلا ان رايت ان قد شرح الله صدر ابي بكر للقتال فعرفت انه الحق".(مرفوع) قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنْ قَدْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ".
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا میں تو اللہ کی قسم اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے، اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا حق ہے) اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھ کو ایک بکری کا بچہ نہ دیں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا قسم اللہ کی اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے حق ہے۔
Abu Bakr said, "By Allah! I will fight whoever differentiates between prayers and Zakat as Zakat is the right to be taken from property (according to Allah's Orders). By Allah! If they refused to pay me even a kid they used to pay to Allah's Apostle, I would fight with them for withholding it." `Umar said, "By Allah: It was nothing, but I noticed that Allah opened Abu Bakr's chest towards the decision to fight, therefore I realized that his decision was right."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 84, Number 59
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6925
حدیث حاشیہ: (1) جو شخص فرائض، مثلاً: زکاۃ وغیرہ دینے سے انکار کرتا ہے، اس کے متعلق تحقیق کی جائے، اگر وہ وجوب کا قائل ہے لیکن دینے سے انکار کرتا ہے تو اس سے جبراً زکاۃ وصول کی جائے اور اس جنگ نہ کی جائے اور اگر انکار کرنے کے ساتھ ساتھ لڑائی کرنے پر آمادہ ہے تو پھر ایسے شخص کو معاف نہ کیا جائے بلکہ ایسے شخص سے قتال کیا جائے۔ (2) دراصل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مرتدین کی تین قسمیں حسب ذیل تھیں: ٭ایک وہ لوگ تھے جو بتوں کی پوجا پاٹ میں لگ گئے اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا۔ ٭ایک وہ گروہ تھا جنھوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کی پیروی اختیار کرلی۔ ٭ ایسی جماعت بھی تھی جو اسلام کا اقرار کرتے تھے لیکن زکاۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا اور انھوں نے خیال کیا کہ زکاۃ کی ادائیگی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے خاص تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس آخری قسم کے متعلق بحث کی کہ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زکاۃ نہ دینے والوں سے اس لیے جنگ کرنے کا ارادہ کیا کہ انھوں نے بزور شمشیر زکاۃ روکی تھی اور مسلمانوں کے خلاف محاذ جنگ کھول دیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ نماز اور زکاۃ کا معاملہ ایک ہے۔ اگر کوئی دانستہ نماز تارک ہے تو اس سے جنگ کی جائے گی اسی طرح اگر کوئی زکاۃ نہ دے تو اس سے جبراً وصول کی جائے گی۔ اگر وہ اس کے لیے جنگ کرے تو اس سے جنگ کی جائے گی۔ آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ دلیل سے حق کو پہچان لیا اور پوری طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے موقف سے متفق ہو گئے۔ (فتح الباري: 347/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6925