(موقوف) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا مطرف، ان عامرا حدثهم، عن ابي جحيفة، قال: قلت: لعلي. ح حدثنا صدقة بن الفضل،اخبرنا ابن عيينة، حدثنا مطرف، سمعت الشعبي، يحدث، قال: سمعت ابا جحيفة، قال: سالت عليا رضي الله عنه: هل عندكم شيء مما ليس في القرآن؟، وقال ابن عيينة مرة: ما ليس عند الناس، فقال:" والذي فلق الحبة، وبرا النسمة، ما عندنا إلا ما في القرآن إلا فهما يعطى رجل في كتابه وما في الصحيفة، قلت: وما في الصحيفة؟، قال: العقل وفكاك الاسير وان لا يقتل مسلم بكافر".(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: قُلْتُ: لِعَلِيٍّ. ح حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ،أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، يُحَدِّثُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مِمَّا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ؟، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ مَرَّةً: مَا لَيْسَ عِنْدَ النَّاسِ، فَقَالَ:" وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، مَا عِنْدَنَا إِلَّا مَا فِي الْقُرْآنِ إِلَّا فَهْمًا يُعْطَى رَجُلٌ فِي كِتَابِهِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ، قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟، قَالَ: الْعَقْلُ وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے، کہا ہم سے مطرف بن طریف نے، ان سے عامر شعبی نے بیان کیا۔ ابوجحیفہ سے روایت کر کے، کہا میں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا۔ (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے صدقہ بن فضل نے، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا ہم سے مطرف بن طریف نے بیان کیا، کہا میں نے عامر شعبی سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابوجحیفہ سے سنا، انہوں نے کہا میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کے پاس اور بھی کچھ آیتیں یا سورتیں ہیں جو اس قرآن میں نہیں ہیں (یعنی مشہور مصحف میں) اور کبھی سفیان بن عیینہ نے یوں کہا کہ جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا قسم اس اللہ کی جس نے دانہ چیر کر اگایا اور جان کو پیدا کیا ہمارے پاس اس قرآن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ البتہ ایک سمجھ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی جس کو چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے اور وہ جو اس ورق پہ لکھا ہوا ہے۔ ابوجحیفہ نے کہا اس ورق پہ کیا لکھا ہے؟ انہوں نے کہا دیت اور قیدی چھڑانے کے احکام اور یہ مسئلہ کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
Narrated Abu Juhaifa: I asked `Ali "Do you have anything Divine literature besides what is in the Qur'an?" Or, as Uyaina once said, "Apart from what the people have?" `Ali said, "By Him Who made the grain split (germinate) and created the soul, we have nothing except what is in the Qur'an and the ability (gift) of understanding Allah's Book which He may endow a man, with and what is written in this sheet of paper." I asked, "What is on this paper?" He replied, "The legal regulations of Diya (Blood-money) and the (ransom for) releasing of the captives, and the judgment that no Muslim should be killed in Qisas (equality in punishment) for killing a Kafir (disbeliever).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 50
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6915
حدیث حاشیہ: حنفیہ نے اس صحیح حدیث کو جو اہل بیت رسالت سے مروی ہے چھوڑ کر ایک ضعیف حدیث سے دلیل لی ہے جس کو دارقطنی اور بیہقی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کو کافر کے بدلے قتل کرایا حالانکہ دارقطنی نے خود صراحت کر دی ہے کہ اس کا راوی ابراہیم ضعیف ہے اور بیہقی نے کہا کہ یہ حدیث راوی کی غلطی ہے اور بحالت انفراد ایسی روایت حجت نہیں۔ خصوصاً جبکہ مرسل بھی ہو اور مخالف بھی ہو۔ احادیث صحیحہ کے حافظ نے کہا اگر تسلیم بھی کر لیں کہ یہ واقعہ صحیح نہيں ہے یہ حدیث اس حدیث سے منسوخ نہ ہوگی کیوں کہ یہ حدیث لایُقتَلُ مُسلم بِکَافر آپ نے فتح مکہ کے دن فرمائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6915
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6915
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے شدید وعید پر مشتمل سابقہ عنوان کے بعد یہ عنوان اس لیے ذکر نہیں کیا کہ کسی ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کر دیا جائے جب مسلمان اسے دانستہ قتل کر دے بلکہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو اس کا یہ مفہوم نہیں کہ مسلمان ہر کافر کو موت کے گھاٹ اتار دے بلکہ حق کے بغیر ایک ذمی یا معاہد کو قتل کرنا بھی حرام ہے۔ (فتح الباري: 325/12)(2) مسلمان کو ذمی کے بدلے میں قتل کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ ذمی بھی کافر ہے، اس لیے مسلمان کو اس کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ اہل کوفہ کہتے ہیں کہ ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا جائے گا۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک روایت کا سہارا لیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاہد کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا اور فرمایا: ”میں اہل ذمہ کے ذمہ کو پورا کرنے کا زیادہ حق دار ہوں۔ “(سنن الدار قطنی: 135/3) اس حدیث کے متعلق امام دار قطنی رحمہ اللہ نے سخت جرح کی ہے کہ اسے ابراہیم بن ابی یحییٰ بیان کرتا ہے جو متروک الحدیث ہے، نیز اسے ابن بیلمانی نے بیان کیا ہے اور وہ انتہائی ضعیف ہے۔ اس کے باوجود وہ اس حدیث کو مرسل بیان کرتا ہے۔ (سنن الدار قطنی: 135/3) اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ منسوخ ہے کیونکہ مومن کو کافر کے بدلے میں نہ قتل کرنے پر مشتمل حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ (فتح الباري: 327/12) جمہور کے مبنی بر حقیقت موقف کے پیش نظر اہل کوفہ میں سے امام زفر نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 31/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6915