صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
16. بَابُ إِذَا مَاتَ فِي الزِّحَامِ أَوْ قُتِلَ:
16. باب: جب کوئی ہجوم میں مر جائے یا مارا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
(16) Chapter. If someone dies or is killed in a big crowd.
حدیث نمبر: 6890
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني إسحاق بن منصور، اخبرنا ابو اسامة، قال: هشام اخبرنا، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" لما كان يوم احد، هزم المشركون، فصاح إبليس: اي عباد الله اخراكم، فرجعت اولاهم، فاجتلدت هي واخراهم"، فنظر حذيفة فإذا هو بابيه اليمان، فقال: اي عباد الله: ابي ابي، قالت: فوالله ما احتجزوا حتى قتلوه، قال حذيفة: غفر الله لكم، قال عروة: فما زالت في حذيفة منه بقية خير حتى لحق بالله.(موقوف) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: هِشَامٌ أَخْبَرَنَا، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ، فَصَاحَ إِبْلِيسُ: أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أُخْرَاكُمْ، فَرَجَعَتْ أُولَاهُمْ، فَاجْتَلَدَتْ هِيَ وَأُخْرَاهُمْ"، فَنَظَرَ حُذَيْفَةُ فَإِذَا هُوَ بِأَبِيهِ الْيَمَانِ، فَقَالَ: أَيْ عِبَادَ اللَّهِ: أَبِي أَبِي، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّى قَتَلُوهُ، قَالَ حُذَيْفَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، قَالَ عُرْوَةُ: فَمَا زَالَتْ فِي حُذَيْفَةَ مِنْهُ بَقِيَّةُ خَيْرٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ.
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو ابواسامہ نے خبر دی، انہیں ہشام نے خبر دی، کہا ہم کو ہمارے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی میں مشرکین کو پہلے شکست ہو گئی تھی لیکن ابلیس نے چلا کر کہا اے اللہ کے بندو! پیچھے کی طرف والوں سے بچو! چنانچہ آگے کے لوگ پلٹ پڑے اور آگے والے پیچھے والوں سے (جو مسلمان ہی تھے) بھڑ گئے۔ اچانک حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان کے والد یمان رضی اللہ عنہ تھے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے بندو! یہ تو میرے والد ہیں، میرے والد۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم مسلمان انہیں قتل کر کے ہی ہٹے۔ اس پر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تمہاری مغفرت کرے۔ عروہ نے بیان کیا کہ اس واقعہ کا صدمہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کو آخر وقت تک رہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: "When it was the day of (the battle of) Uhud, the pagans were defeated. Then Satan shouted, "O Allah's worshipers! Beware of what is behind you!" So the front files attacked the back files of the army. Hudhaifa looked, and behold, there was his father, Al-Yaman (being attacked) ! He shouted (to his companions), "O Allah's worshipers, my father, my father!" But by Allah, they did not stop till they killed him (i.e., Hudhaifa's father). Hudhaifa said, "May Allah forgive you." (`Urwa said, Hudhaifa continued asking Allah's Forgiveness for the killer of his father till he died.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 28


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6890 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6890  
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر کوئی مسلمان کسی رش یا حادثے میں مارا جائے تو اس کی دیت کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں:
٭ایسے قتل کی دیت بیت المال سے دی جائے۔
٭قتل کی دیت ان لوگوں پر ہے جو اس وقت موجود تھے۔
٭مقتول کے وارث سے کہا جائے کہ تم کسی ایک کو نامزد کرو، پھر وہ اگر قسم اٹھائے تو دیت کا حقدار ہوگا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو مدعی علیہ کی قسم سے دعویٰ ختم ہو جائے گا۔
٭ایسا خون رائیگاں اور ضائع ہے کسی سے دیت کا مطالبہ نہیں ہوگا۔
(2)
ہمارے رجحان کے مطابق اس کے متعلق یہ موقف قرین قیاس ہے کہ بیت المال سے اس کی دیت ادا کر دی جائے تاکہ ایک مسلمان کا خون رائیگاں اور ضائع نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد کی دیت از خود بیت المال سے ادا کی تھی۔
اس کی تائید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک عمل سے بھی ہوتی ہے کہ جمعہ کے دن ایک آدمی رش میں مارا گیا تو انھوں نے بیت المال سے اس کی دیت ادا کی۔
دور حاضر میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ قومی خزانےسےحادثات میں مرنےوالوں کی دیت ادا کرے۔
(فتح الباري: 271/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6890   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.