(موقوف) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، قال: قال علي رضي الله عنه:" ما عندنا كتاب نقرؤه إلا كتاب الله غير هذه الصحيفة، قال: فاخرجها فإذا فيها اشياء من الجراحات واسنان الإبل، قال: وفيها المدينة حرم ما بين عير إلى ثور، فمن احدث فيها حدثا او آوى محدثا، فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل، ومن والى قوما بغير إذن مواليه، فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل، وذمة المسلمين واحدة، يسعى بها ادناهم، فمن اخفر مسلما، فعليه لعنة الله، والملائكة، والناس اجمعين، لا يقبل منه يوم القيامة، صرف ولا عدل".(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" مَا عِنْدَنَا كِتَابٌ نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ غَيْرَ هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، قَالَ: فَأَخْرَجَهَا فَإِذَا فِيهَا أَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ وَأَسْنَانِ الْإِبِلِ، قَالَ: وَفِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَمَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ، يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھیں، سوا اللہ کی کتاب قرآن کے اور اس کے علاوہ یہ صحیفہ بھی ہے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صحیفہ نکالا تو اس میں زخموں (کے قصاص) اور اونٹوں کی زکوٰۃ کے مسائل تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ اس میں یہ بھی تھا کے عیر سے ثور تک مدینہ حرم ہے جس نے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا نئی بات کرنے والے کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور جس نے اپنے مالکوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے مولات قائم کر لی تو اس پر فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل مقبول نہ ہو گا اور مسلمانوں کا ذمہ (قول و قرار، کسی کو پناہ دینا وغیرہ) ایک ہے۔ ایک ادنی مسلمان کے پناہ دینے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ پس جس نے کسی مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو توڑا، اس پر اللہ کی، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے قیامت کے دن اس کا کوئی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔
Narrated `Ali: We have no Book to recite except the Book of Allah (Qur'an) and this paper. Then `Ali took out the paper, and behold ! There was written in it, legal verdicts about the retaliation for wounds, the ages of the camels (to be paid as Zakat or as blood money). In it was also written: 'Medina is a sanctuary from Air (mountain) to Thaur (mountain). So whoever innovates in it an heresy (something new in religion) or commits a crime in it or gives shelter to such an innovator, will incur the curse of Allah, the angels and all the people, and none of his compulsory or optional good deeds will be accepted on the Day of Resurrection. And whoever (a freed slave) takes as his master (i.e. be-friends) some people other than hi real masters without the permission of his real masters, will incur the curse of Allah, the angels and all the people, and none of his compulsory, or optional good deeds will be accepted on the Day of Resurrection. And the asylum granted by any Muslim is to be secured by all the Muslims, even if it is granted by one of the lowest social status among them; and whoever betrays a Muslim, in this respect will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and none of his Compulsory or optional good deeds will be accepted on the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 80, Number 747
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6755
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں ”اجازت کے بغیر“ کے الفاظ محض اتفاقی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اگر آقا اپنے غلام کو کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنے کی اجازت دے دے تو ایسا کرنا جائز ہے اگر چہ حضرت عطاء بن ابی رباح نے اسے جائز قرار دیا ہے ہے لیکن ایسا کرنا شارع کی منشا کے خلاف ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو،(الأنعام6: 151) اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اگر مفلسی کا اندیشہ نہ ہوتو پھر اولاد کا قتل کرنا جائز ہے۔ اس کی اجازت سے دوسروں کی مدد تو کی جا سکتی ہے لیکن اپنا حق وراثت منتقل نہیں کیا جا سکتا ہے جس کی وضاحت آئندہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ واللہ أعلم. (فتح الباري: 52/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6755