17. باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ آل عمران میں فرمانا ”جو لوگ اللہ کا نام لے کر عہد کر کے قسمیں کھا کر اپنی قسموں کے بدلہ میں تھوڑی پونجی (دنیا کی مول لیتے ہیں) یہی وہ لوگ ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نیک نہیں ہو گا“۔
(17) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, those who purchase a small gain at the cost of Allah’s Covenant and their oaths..." (V.3:77) And also the Statement of Allah: "And purchase not a small gain at the cost of Allah’s Covenant. Verily! What is with Allah is better for you if you did but know." (V.16:95) And fulfil the Convenant of Allah (Baia: pledge for Islam) when you have convenanted, and break not the oaths after you have confirmed them - and indeed you have appointed Allah your surety..." (V.16:91)
(مرفوع) فدخل الاشعث بن قيس، فقال: ما حدثكم ابو عبد الرحمن، فقالوا: كذا وكذا، قال: في انزلت، كانت لي بئر في ارض ابن عم لي، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" بينتك او يمينه"، قلت: إذا يحلف عليها يا رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من حلف على يمين صبر وهو فيها فاجر، يقتطع بها مال امرئ مسلم، لقي الله يوم القيامة وهو عليه غضبان".(مرفوع) فَدَخَلَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، فَقَالَ: مَا حَدَّثَكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالُوا: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فِيَّ أُنْزِلَتْ، كَانَتْ لِي بِئْرٌ فِي أَرْضِ ابْنِ عَمٍّ لِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" بَيِّنَتُكَ أَوْ يَمِينُهُ"، قُلْتُ: إِذًا يَحْلِفُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينِ صَبْرٍ وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ، يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ".
عبداللہ یہ حدیث بیان کر چکے تھے، اتنے میں اشعث بن قیس آئے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن نے تم لوگوں سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ لوگوں نے کہا اس اس مضمون کی۔ انہوں نے کہا اجی یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی میرے ایک چچازاد بھائی کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا اس کے جھگڑے کے سلسلہ میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گواہ لاؤ ورنہ مدعاعلیہ سے قسم لی جائے گی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر وہ تو جھوٹی قسم کھا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جھوٹی قسم بدنیتی کے ساتھ اس لیے کھائی کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر جائے تو قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اللہ اس پر انتہائی غضب ناک ہو گا۔
(The sub-narrator added:) Al-Ash'ath bin Qais entered, saying, "What did Abu `Abdur-Rahman narrate to you?" They said, "So-and-so," Al-Ash'ath said, "This verse was revealed in my connection. I had a well on the land of my cousin (and we had a dispute about it). I reported him to Allah 's Apostle who said (to me). "You should give evidence (i.e. witness) otherwise the oath of your opponent will render your claim invalid." I said, "Then he (my opponent) will take the oath, O Allah's Apostle." Allah's Apostle said, "Whoever is ordered (by the ruler or the judge) to give an oath, and he takes a false oath in order to grab the property of a Muslim, then he will incur Allah's Wrath when he meets Him on the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8 , Book 78 , Number 668
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6677
حدیث حاشیہ: ایک دوسری حدیث میں مذکورہ آیت کی شان نزول کا اس طرح ذکر ہوا ہے جس کی تفصیل حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بازار میں اپنا مال رکھا اور ایک مسلمان کو پھانسنے کے لیے جھوٹی قسم کھا کر کہنے لگا: مجھے اس مال کی اتنی قیمت ملتی تھی، حالانکہ یہ بات غلط تھی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4551) ممکن ہے کہ دونوں مواقع پر یہ آیت نازل ہوئی ہو کیونکہ اس کے لفظ عام ہیں جو دونوں مواقع کو شامل ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آیت پہلے نازل ہو چکی ہو لیکن حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کو اس کا علم مذکورہ واقعے کے بعد ہوا ہو، اس لیے انہوں نے خیال کیا کہ یہ آیت اسی واقعے کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (فتح الباري: 682/1) بہرحال حقوق العباد کا معاملہ انتہای سنگین اور حساس ہے، انسان کو چاہیے کہ اس سلسلے میں محتاط رہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6677