وقال ابو موسى الاشعري دعا النبي صلى الله عليه وسلم ثم رفع يديه ورايت بياض إبطيه، وقال ابن عمر: رفع النبي صلى الله عليه وسلم يديه وقال: اللهم إني ابرا إليك مما صنع خالد.وَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ.
اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اپنے ہاتھ اٹھائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی کہ ”اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔“
قال ابو عبد الله: وقال الاويسي: حدثني محمد بن جعفر، عن يحيى بن سعيد، وشريك، سمعا انسا، عن النبي صلى الله عليه وسلم: رفع يديه حتى رايت بياض إبطيه.قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ الْأُوَيْسِيُّ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَشَرِيكٍ، سَمِعَا أَنَسًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ.
ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے کہا مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید اور شریک بن ابی نمر نے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اتنے اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6341
حدیث حاشیہ: حضرت خالد نے ایک غزوہ میں بنو خزیمہ کے لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ حالانکہ وہ ''صبانا صبانا'' کہہ کر اسلام قبول کر رہے تھے۔ مگر حضرت خالد نہ سمجھ سکے اور ان کو قتل کر دیا جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت خفگی کا اظہار فرمایا اور اللہ کے ساتھ اس سے بیزاری ظاہر فرمائی جو یہاں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6341
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6341
حدیث حاشیہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے وقت ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، البتہ دعائے استسقاء میں اس قدر ہاتھ اٹھاتے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ (صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1031) اس حدیث سے بعض اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ استسقاء کی دعا کے علاوہ کسی موقع پر ہاتھ نہیں اٹھانے چاہئیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید میں یہ عنوان اور مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ دعائے استسقاء میں ہاتھوں کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے کہ ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف اور اندرونی حصہ زمین کی طرف ہوتا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کو مبالغے کی حد تک اوپر اٹھاتے تھے حتی کہ انہیں اپنے منہ کے برابر کر لیتے۔ اس سے مراد مطلق طور پر ہاتھ اٹھانے کی نفی نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایسی متعدد احادیث کا حوالہ دیا ہے جن میں دعا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري: 171/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6341