قال ابو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من اشراط الساعة: إذا تطاول رعاء البهم في البنيان.قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ: إِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ مویشی چرانے والے لوگ کوٹھیوں میں اکڑنے لگیں گے یعنی بلند کوٹھیاں بنوا کر فخر کرنے لگیں گے۔
(موقوف) حدثنا ابو نعيم، حدثنا إسحاق هو ابن سعيد، عن سعيد، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" رايتني مع النبي صلى الله عليه وسلم بنيت بيدي بيتا يكنني من المطر، ويظلني من الشمس ما اعانني عليه احد من خلق الله".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" رَأَيْتُنِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَيْتُ بِيَدِي بَيْتًا يُكِنُّنِي مِنَ الْمَطَرِ، وَيُظِلُّنِي مِنَ الشَّمْسِ مَا أَعَانَنِي عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق نے بیان کیا وہ سعید کے بیٹے ہیں، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا تاکہ بارش سے حفاظت رہے اور دھوپ سے سایہ حاصل ہو اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے اس کام میں میری مدد نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ضرورت کے لائق گھر بنانا درست ہے۔
Narrated Ibn `Umar: During the life-time of the Prophet I built a house with my own hands so that it might protect me from the rain and shade me from the sun; and none of Allah's creatures assisted me in building it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 315
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6302
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی تنگدستی کا اظہار ہے کہ میں نے بقدر ضرورت اپنی کٹیا تعمیر کی تھی، اس کے بعد تباہ حال اور تنگ دست وفقیر، مال دار بن گئے اور ضرورت کے بغیر مکانات تعمیر کرنے میں دلچسپی لینے لگے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمارت اپنے بنانے والے کے لیے وبال جان ہوگی مگرو وہ عمارت جس کے بغیر چارۂ کار نہ ہو۔ " (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5237)(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: جن احادیث میں تعمیرات کی مذمت بیان ہوئی ہے ان سے مراد ایسی عمارات ہیں جو بلا ضرورت، محض نمائش اور اظہار فخر کے لیے بنائی گئی ہوں لیکن جو عمارتیں رہائش اور گرمی سردی سے بچاؤ کے لیے ہیں وہ قطعاً مراد نہیں کیونکہ یہ انسانی ضرورت کے لیے ہوتی ہیں۔ (فتح الباري: 111/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6302