وتكلم سليمان بن صرد في اذانه، وقال الحسن: لا باس ان يضحك وهو يؤذن او يقيم.وَتَكَلَّمَ سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ فِي أَذَانِهِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: لَا بَأْسَ أَنْ يَضْحَكَ وَهُوَ يُؤَذِّنُ أَوْ يُقِيمُ.
اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حسن بصری نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی اور عبدالحمید بن دینار صاحب الزیادی اور عاصم احول سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن حارث بصریٰ سے، انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب «حى على الصلاة» پر پہنچا تو آپ نے اس سے «الصلاة في الرحال» کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انہوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔
Narrated `Abdullah bin Al-Harith: Once on a rainy muddy day, Ibn `Abbas delivered a sermon in our presence and when the Mu'adhdhin pronounced the Adhan and said, "Haiyi `ala-s-sala(t) (come for the prayer)" Ibn `Abbas ordered him to say 'Pray at your homes.' The people began to look at each other (surprisingly). Ibn `Abbas said. "It was done by one who was much better than I (i.e. the Prophet or his Mu'adh-dhin), and it is a license.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 589
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 616
حدیث حاشیہ: موسلادھاربارش ہورہی تھی کہ جمعہ کا وقت ہوگیا اورمؤذن نے اذان شروع کی جب وہ حی علی الصلوٰة پر پہنچا تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اسے فوراً لقمہ دیا کہ یوں کہو الصلوٰة في الرحال یعنی لوگو اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز ادا کر لو۔ چونکہ لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی اس لیے ان کو تعجب ہوا۔ جس پر حضرت ابن عباس ؓ نے ان کو سمجھایا کہ میں نے ایسے موقع پر رسول کریم ﷺ کا یہی معمول دیکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایسے خاص موقع پر دوران اذان کلام کرنا درست ہے۔ اوراتفاقاً اگرکسی کو اذان کے وقت ہنسی آگئی تو اس سے بھی اذان میں خلل نہ ہوگا۔ یہ اتفاقی امور ہیں جن سے اسلام میں آسانی دکھانا مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 616
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 616
فوائد:
➊ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اذان کے دوران مؤذن کو «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کی جگہ «اَلصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ» کہنے کا حکم دیا جو روزانہ اذان کا حصہ نہیں ہے، اس سے اذان کے دوران کلام کرنے کا جواز ثابت ہوا۔
➋ «إِنَّهَا عَزْمَةٌ:» یعنی اذان سن کر جمعہ کے لیے آنا عزیمت (ضروری) ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «يَاأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوة مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ»[الجمعة: 9](اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو) اگر میں «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کہلواتا تو سب لوگوں کے لیے جمعہ میں آنا فرض ہو جاتا اور کیچڑ میں آنے سے انھیں تکلیف ہوتی، اس لیے میں نے «الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ» کہلوا دیا کہ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھو، اب رخصت ہو گئی، جو چاہے آئے جو چاہے نہ آئے۔
➌ «اَلصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ» يا «أَلَا صَلُّوْا فِي الرِّحَالِ» کے الفاظ «حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ» کی جگہ کہے جائیں یا پوری اذان کے بعد آخر میں کہے جائیں دونوں طرح جائز ہے۔ بعد میں کہنے کی حدیث (632) پر آ رہی ہے اور وہی رائج ہے۔
➍ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ:
یعنی اس طرح اس مؤذن نے کیا جو اس مؤذن سے بہتر تھا، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے ایسے کیا جو یقیناََ اس مؤذن سے بہتر تھا۔ صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں یہ لفظ ہیں: «مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْيْ» یعنی یہ اس نے کیا جو مجھے سے بہتر تھا، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو ایسے ہی فرمایا جو مجھ سے بہتر تھے۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 616
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:616
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت میں دورانِ اذان میں، مؤذن کے کلام کرنے کی صراحت نہیں ہے تو اس کی عنوان سے مطابقت بایں طور ہے کہ اذان کے درمیان کلام کرنے سے کلمات اذان کا نسق اور اسلوب متاثر ہوتا ہے۔ حي على الصلاة کے بعد یا اس کی جگہ ألا صلوا في الرحال کہنے سے بھی اذان معہود کا اسلوب متاثر ہوگا، لیکن اس کے باوجود اذان صحیح ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی ہے کہ دوران اذان میں اگر ایسا کلام کیا جائے جس سے اذان کا نظم متاثر ہو، اس سے اذان کے صحیح ہونے میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ (2) روایت کے آخر میں ہم نے ترجمہ کرتے وقت قوسین کے اندر نماز جمعہ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 901) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ألا صلوا في الرحال کے الفاظ کہے جائیں تو حي على الصلاة کے پیش نظر بارش اور کیچڑ کے باوجود جمعہ کی نماز کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے، اگرچہ مشقت ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے ألا صلوا في الرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بارش ایک ایسا عذر ہے جس کے پیش نظر ایک عزیمت رخصت میں بدل جاتی ہے۔ (فتح الباري: 2/494)(3) بارش یا کیچڑ کی وجہ سے ألا صلوا في الرحال کے الفاظ حي على الصلاة کی جگہ یا اس کے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کہے جائیں؟اس کی تفصیل اور راجح موقف حدیث: 632 کے تحت بیان ہوگا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 616