الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: لباس کے بیان میں
The Book of Dress
12. بَابُ الْقَبَاءِ وَفَرُّوجِ حَرِيرٍ:
12. باب: قباء اور ریشمی فروج کے بیان میں۔
(12) Chapter. Al-Qaba. And the silken Farruj, which is a kind of Al-Qaba, and it is said that it has a sit at the back.
حدیث نمبر: 5801
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر رضي الله عنه انه قال:" اهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم فروج حرير، فلبسه ثم صلى فيه، ثم انصرف فنزعه نزعا شديدا كالكاره له، ثم قال: لا ينبغي هذا للمتقين"، تابعه عبد الله بن يوسف، عن الليث، وقال غيره، فروج حرير.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ:" أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُّوجُ حَرِيرٍ، فَلَبِسَهُ ثُمَّ صَلَّى فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَزَعَهُ نَزْعًا شَدِيدًا كَالْكَارِهِ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: لَا يَنْبَغِي هَذَا لِلْمُتَّقِينَ"، تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ اللَّيْثِ، وَقَالَ غَيْرُهُ، فَرُّوجٌ حَرِيرٌ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشم کی فروج (قباء) ہدیہ میں دی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنا (ریشم کا مردوں کے لیے حرمت کے حکم سے پہلے) اور اسی کو پہنے ہوئے نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بڑی تیزی کے ساتھ اتار ڈالا جیسے آپ اس سے ناگواری محسوس کرتے ہوں پھر فرمایا کہ یہ متقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس روایت کی متابعت عبداللہ بن یوسف نے کی ان سے لیث نے اور عبداللہ بن یوسف کے علاوہ دوسروں نے کہا کہ «فروج حرير‏.‏» ۔

Narrated `Uqba bin 'Amir: A silken Farruj was presented to Allah's Apostle and he put it on and offered the prayer in it. When he finished the prayer, he took it off violently as if he disliked it and said, "This (garment) does not befit those who fear Allah!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 693


   صحيح البخاري5801عقبة بن عامرلا ينبغي هذا للمتقين
   صحيح البخاري375عقبة بن عامرلا ينبغي هذا للمتقين
   صحيح مسلم5427عقبة بن عامرلا ينبغي هذا للمتقين
   سنن النسائى الصغرى771عقبة بن عامرلا ينبغي هذا للمتقين
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5801 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5801  
حدیث حاشیہ:
اس میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قبائیں ریشمی تھیں آپ نے کیونکر پہنی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ شاید اس وقت تک ریشمی کپڑا مردوں کے لیے حرام نہ ہوا ہو گا یا آپ نے اس قبا کو بطور حفاظت اپنے اوپر ڈال لیا ہوگا، یہ پہننا نہیں ہے جیسے کوئی کسی کو دینا چاہتا ہو اس کے بعد ریشمی کپڑا مردوں پر حرام ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5801   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5801  
حدیث حاشیہ:
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی قبا پہن کر مغرب کی نماز پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد اسے جلدی سے اتار پھینکا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:
اللہ کے رسول! آپ نے اسے پہنا پھر اس میں نماز ادا کی، تو آپ نے مذکورہ جواب دیا۔
ابن بطال کہتے ہیں کہ آپ نے اسے جلدی سے اتارا کیونکہ ریشم کا استعمال مردوں کے لیے حرام تھا اور یہ قبا خالص ریشم کی تھی یا اس لیے اتارا کہ وہ عجمیوں کا لباس تھا۔
حدیث میں ہے:
جس نے کسی قسم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گا۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4031)
بہرحال ریشم مردوں کے لیے حرام اور عورتوں کے لیے جائز ہے جس کی آئندہ وضاحت ہو گی۔
(فتح الباري: 334/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5801   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 771  
´ریشمی کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشمی قباء ہدیے میں دی گئی، تو آپ نے اسے پہنا، پھر اس میں نماز پڑھی، پھر جب آپ نماز پڑھ چکے تو اسے زور سے اتار پھینکا جیسے آپ اسے ناپسند کر رہے ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل تقویٰ کے لیے یہ مناسب نہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 771]
771 ۔ اردو حاشیہ: ریشم پہننا مرد کے لیے ناجائز ہے۔ اس میں نماز پڑھنا بدرجۂ اولیٰ ناپسندیدہ ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت سے قبل پہنی ہو گی۔ پھر ناپسندیدگی کی وجہ سے اتاری۔ یہ نہیں کہ حرام ہونے کے بعد پہنی یا اتاری۔ آپ کے یہ الفاظ: «لَا يَنْبَغِي هَذَا لِلْمُتَّقِينَ» بھی دلیل ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب ریشم حرام نہ ہوا تھا۔ حرمت کے بعد تو متقی اور غیرمتقی برابر ہیں، البتہ ریشم میں پڑھی ہوئی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ نماز کے اندر کوئی خرابی نہیں ہوئی اور نہ اس کی کوئی شرط یا رکن مفقود ہوا۔ ریشم کا حرام ہونا نماز سے الگ مسئلہ ہے، گویا ریشم پہننے کا گناہ الگ ہے اور نماز کی صحت ایک الگ چیز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 771   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:375  
375. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی کوٹ بطور ہدیہ لایا گیا۔ آپ نے اسے زیب تن فر کر نماز پڑھی، مگر جب نماز سے فارغ ہوئے تو اسے سختی سے اتار پھینکا۔ گویا آپ کو وہ سخت ناگوار گزرا، نیز آپ نے فرمایا: تقویٰ شعار لوگوں کے لیے یہ غیر مناسب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:375]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کے نزدیک اگر کوئی شخص ریشم کا لباس پہن کر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز ہو جائے گی۔
ریشم پہننے کا گنا ہ اسے ضرور ملے گا، کیونکہ اس کا پہننا مردوں کے لیے حرام ہے۔
جیسا کہ محرم کے لیے سلا ہوا کپڑا پہننا حرام ہے، لیکن اگر پہن لے اور نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی۔
ان عوارض کی وجہ سے جو نقصان آتا ہے، اس کی تعبیر کراہت سے کی جاتی ہے۔
چنانچہ علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ جو شخص ریشمی کپڑا پہن کر نماز ادا کرتا ہے، اس کی نماز صحیح ہے، اگرچہ ہمارے نزدیک مکروہ ہے۔
(إعلام الحدیث: 357/1)
یہ بھی واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو ریشمی کوٹ پہن کر نماز پڑھی تھی وہ دومة الجندل کے بادشاہ اکیدر بن عبدالملک نے آپ کو بطور تحفہ دیا تھا۔
(صحیح مسلم، اللباس، حدیث: 5422 (2071)
صحیح مسلم ہی میں قبائے دیباج کا ذکر ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حضرت جبریل علیہ السلام نے اس سے منع کر دیا تھا۔
(صحیح مسلم، اللباس، حدیث: 5419 (2070)
اس لیے ممکن ہے کہ یہ نماز ریشمی کپڑا پہننے کی حرمت سے پہلے ادا کی ہو اور جب آپ کو اس کی حرمت کا پتہ چلا تو آپ نے ناگواری کے ساتھ اپنے جسم سے الگ فرمادیا۔
اور اگر آپ نے اس نہی سے پہلے اتاراتو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تحریم و ممانعت سے پہلے بھی حق تعالیٰ کی مرضیات پر نظر رکھتے تھے۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک آپ نے ریشم استعمال نہیں کیا تھا اس وقت تک آپ کو اس کے عیب و نقصان کا انداز ہ نہ تھا جب آپ نے استعمال کیا تو اس کا عیب معلوم ہوا کہ یہ تو عیش پرست لوگوں کا لباس ہے اور اس کے استعمال سے جسم میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے جو مردانہ جفاکشی اور سخت کوشی کے خلاف ہے۔
مرد کا جسم تومضبوط ہونا چاہیے، اس لیے آپ نے اتارتے وقت فرمایا:
یہ تقوی شعار لوگوں کا لباس نہیں عیش پرستوں کا لباس ہے لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ شریعت نے چند ضرورتوں کے پیش نظر ریشم کے استعمال کی اجازت دی ہے، مثلاً:
جہاد کے موقع پر زرہ کے نیچے ریشم کا استعمال درست ہے، تاکہ اگر دشمن کی تلوار زرہ کو کاٹ دے تو ریشم پر جا کروہ بے کار ہو جائے۔
کوئی اور کپڑا نہیں تو ستر پوشی یا سردی سے حفاظت کے لیے استعمال کیا جائے۔
خشونت جسم کی وجہ سے خشک خارش یا جوئیں پڑگئی ہوں تو بغرض علاج اسے پہنا جا سکتا ہے۔
اس کے متعلق دیگر مسائل کتاب اللباس میں بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 375   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.