الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
The Book of Slaughtering and Hunting
11. بَابُ التَّصَيُّدِ عَلَى الْجِبَالِ:
11. باب: اس بیان میں کہ پہاڑوں پر شکار کرنا جائز ہے۔
(11) Chapter. To hunt on mountains.
حدیث نمبر: 5492
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن سليمان الجعفي، قال: حدثني ابن وهب، اخبرنا عمرو، ان ابا النضر حدثه، عن نافع مولى ابي قتادة، وابي صالح مولى التوءمة، سمعت ابا قتادة، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم فيما بين مكة والمدينة وهم محرمون وانا رجل حل على فرس وكنت رقاء على الجبال، فبينا انا على ذلك إذ رايت الناس متشوفين لشيء فذهبت انظر، فإذا هو حمار وحش، فقلت لهم: ما هذا؟ قالوا: لا ندري، قلت: هو حمار وحشي، فقالوا: هو ما رايت، وكنت نسيت سوطي، فقلت لهم: ناولوني سوطي، فقالوا: لا نعينك عليه، فنزلت فاخذته ثم ضربت في اثره، فلم يكن إلا ذاك حتى عقرته فاتيت إليهم، فقلت لهم: قوموا فاحتملوا، قالوا: لا نمسه، فحملته حتى جئتهم به، فابى بعضهم واكل بعضهم، فقلت لهم انا استوقف لكم النبي صلى الله عليه وسلم فادركته فحدثته الحديث، فقال لي:" ابقي معكم شيء منه؟"، قلت: نعم، فقال:" كلوا فهو طعم اطعمكموها الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ الْجُعْفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، وَأَبِي صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَيْنَ مَكَّةَ والْمَدِينَةِ وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَأَنَا رَجُلٌ حِلٌّ عَلَى فَرَسٍ وَكُنْتُ رَقَّاءً عَلَى الْجِبَالِ، فَبَيْنَا أَنَا عَلَى ذَلِكَ إِذْ رَأَيْتُ النَّاسَ مُتَشَوِّفِينَ لِشَيْءٍ فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ، فَإِذَا هُوَ حِمَارُ وَحْشٍ، فَقُلْتُ لَهُمْ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: لَا نَدْرِي، قُلْتُ: هُوَ حِمَارٌ وَحْشِيٌّ، فَقَالُوا: هُوَ مَا رَأَيْتَ، وَكُنْتُ نَسِيتُ سَوْطِي، فَقُلْتُ لَهُمْ: نَاوِلُونِي سَوْطِي، فَقَالُوا: لَا نُعِينُكَ عَلَيْهِ، فَنَزَلْتُ فَأَخَذْتُهُ ثُمَّ ضَرَبْتُ فِي أَثَرِهِ، فَلَمْ يَكُنْ إِلَّا ذَاكَ حَتَّى عَقَرْتُهُ فَأَتَيْتُ إِلَيْهِمْ، فَقُلْتُ لَهُمْ: قُومُوا فَاحْتَمِلُوا، قَالُوا: لَا نَمَسُّهُ، فَحَمَلْتُهُ حَتَّى جِئْتُهُمْ بِهِ، فَأَبَى بَعْضُهُمْ وَأَكَلَ بَعْضُهُمْ، فَقُلْتُ لَهُمْ أَنَا أَسْتَوْقِفُ لَكُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدْرَكْتُهُ فَحَدَّثْتُهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ لِي:" أَبَقِيَ مَعَكُمْ شَيْءٌ مِنْهُ؟"، قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ:" كُلُوا فَهُوَ طُعْمٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے ابوقتادہ کے غلام نافع اور توامہ کے غلام ابوصالح نے کہ انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ دوسرے لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میں احرام میں نہیں تھا اور ایک گھوڑے پر سوار تھا۔ میں پہاڑوں پر چڑھنے کا بڑا عادی تھا پھر اچانک میں نے دیکھا کہ لوگ للچائی ہوئی نظروں سے کوئی چیز دیکھ رہے ہیں۔ میں نے جو دیکھا تو ایک گورخر تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں! میں نے کہا کہ یہ تو گورخر ہے۔ لوگوں نے کہا کہ جو تم نے دیکھا ہے وہی ہے۔ میں اپنا کوڑا بھول گیا تھا اس لیے ان سے کہا کہ مجھے میرا کوڑا دے دو لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اس میں تمہاری کوئی مدد نہیں کریں گے (کیونکہ ہم محرم ہیں) میں نے اتر کر خود کوڑا اٹھایا اور اس کے پیچھے سے اسے مارا، وہ وہیں گر گیا پھر میں نے اسے ذبح کیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس اسے لے کر آیا۔ میں نے کہا کہ اب اٹھو اور اسے اٹھاؤ، انہوں نے کہا کہ ہم اسے نہیں چھوئیں گے۔ چنانچہ میں ہی اسے اٹھا کر ان کے پاس لایا۔ بعض نے تو اس کا گوشت کھایا لیکن بعض نے انکار کر دیا پھر میں نے ان سے کہا کہ اچھا میں اب تمہارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رکنے کی درخواست کروں گا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ سے واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی بچا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا کھاؤ کیونکہ یہ ایک کھانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو کھلایا ہے۔

Narrated Abu Qatada: I was with the Prophet (on a journey) between Mecca and Medina, and all of them, (i.e. the Prophet and his companions) were in the state of Ihram, while I was not in that state. I was riding my horse and I used to be fond of ascending mountains. So while I was doing so I noticed that the people were looking at something. I went to see what it was, and behold it was an onager. I asked my companions, "What is that?" They said, "We do not know." I said, "It is an onager.' They said, "It is what you have seen." I had left my whip, so I said to them, "Hand to me my whip." They said, "We will not help you in that (in hunting the onager)." I got down, took my whip and chased the animal (on my horse) and did not stop till I killed it. I went to them and said, "Come on, carry it!" But they said, "We will not even touch it." At last I alone carried it and brought it to them. Some of them ate of it and some refused to eat of it. I said (to them), "I will ask the Prophet about it (on your behalf)." When I met the Prophet, I told him the whole story. He said to me, "Has anything of it been left with you?" I said, "Yes." He said, "Eat, for it is a meal Allah has offered to you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 67, Number 400


   صحيح البخاري5492حارث بن ربعيطعم أطعمكموها الله
   صحيح البخاري5490حارث بن ربعيطعمة أطعمكموها الله
   صحيح مسلم2852حارث بن ربعيطعمة أطعمكموها الله
   جامع الترمذي847حارث بن ربعيطعمة أطعمكموها الله
   سنن أبي داود1852حارث بن ربعيطعمة أطعمكموها الله
   سنن النسائى الصغرى2818حارث بن ربعيطعمة أطعمكموها الله
   صحيح البخاري5491حارث بن ربعي إلا انه قال: هل معكم من لحمه شيء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم406حارث بن ربعيهل معكم من لحمه شيء
   صحيح البخاري1824حارث بن ربعيخرج حاجا فخرجوا معه، فصرف طائفة منهم فيهم ابو قتادة
   مسندالحميدي428حارث بن ربعيهو حلال فكلوه
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5492 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5492  
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے کا مشاق بتایا ہے۔
یہی باب سے مطابقت ہے۔
توامہ وہ لڑکی جو جڑواں پیدا ہو۔
یہ امیہ بن خلف کی بیٹی تھی جو اپنے بھائی کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھی۔
اس لیے اس کا یہی نام پڑ گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5492   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5492  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنا، وہاں اپنا گھوڑا دوڑانا اور مشقت اٹھانا جائز ہے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پہاڑوں پر چڑھنے کے بہت ماہر تھے۔
یہ شکار بھی انہوں نے پہاڑ پر کیا۔
(2)
پہاڑوں پر چڑھ کر اگرچہ شکار کا جواز اس حدیث سے ملتا ہے لیکن بہرحال پہاڑ پر چڑھنا اور وہاں شکار کے پیچھے بھاگ دوڑ کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے، لہذا جواز کی حد تک درست ہے، مگر یہ مشغلہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں سستی کا سبب بن جائے، اگر ایسا ہو تو شکار کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے کا تکلف نہیں کرنا چاہیے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5492   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 406  
´ گورخر حلال جانور ہے`
«. . . عن عطاء بن يسار حدثه عن ابى قتادة فى الحمار الوحشي مثل حديث ابى النضر، إلا ان حديث زيد بن اسلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: هل معكم من لحمه شيء؟ . . .»
. . . عطاء بن یسار سے روایت ہے، انہوں نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے وحشی گدھے (گورخر) کے بارے میں ابوالنضر جیسی حدیث بیان کی سوائے اس کے کہ زید بن اسلم کی (روایت کردہ) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کوئی چیز ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 406]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5491، ومسلم 1196/58، من حديث مالك به]
تفقہ:
① زید بن اسلم تابعی والی یہی روایت ہے جسے انہوں نے عطاء بن یسار سے اور عطاء بن یسار نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ ابوالنضر والی روایت آگے آ رہی ہے۔ [ح 426] ان شاء اللہ
② گورخر ایک چرنے والا جانور ہے جو حلال ہے، اسے نیل گائے بھی کہتے ہیں۔
③ ایک روایت کی سند ضعیف ہو اور اس کے متن کی بعینہ تائید دوسری صحیح روایت سے ہو تو یہ روایت بھی صحیح ہوجاتی ہے، اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 173   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1852  
´محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانا کیسا ہے؟`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، مکہ کا راستہ طے کرنے کے بعد اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے وہ پیچھے رہ گئے، انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، پھر اچانک انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ساتھیوں سے کوڑا مانگا، انہوں نے انکار کیا، پھر ان سے برچھا مانگا تو انہوں نے پھر انکار کیا، پھر انہوں نے نیزہ خود لیا اور نیل گائے پر حملہ کر کے اسے مار ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ساتھیوں نے اس میں سے کھایا اور بعض نے انکار کیا، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر ملے تو آپ سے اس بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک کھانا تھا جو اللہ نے تمہیں کھلایا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1852]
1852. اردو حاشیہ: -1احرام کی حالت میں کسی شکاری کوشکار کا اشارہ دینا یا اس سے کسی طرح کا تعاون کرنا بھی ناجائز ہے۔
➋ جب کوئی شکاری صرف اپنے لئے شکار کرے تو محرمین کو اس سے کھا لینا جائز ہے۔
➌ صحیح احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کا بقیہ گوشت تناول فرمایا تھا۔(صحیح المسلم الحج۔حدیث 119
➐ 1196]

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1852   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2818  
´محرم کے لیے جائز شکار کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ (حج کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ مکہ کے راستہ میں احرام باندھے ہوئے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے، اور وہ خود محرم نہیں تھے (وہاں) انہوں نے ایک نیل گائے دیکھی، تو وہ اپنے گھوڑے پر جم کر بیٹھ گئے، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے درخواست کی وہ انہیں ان کا کوڑا دے دیں، تو ان لوگوں نے انکار کیا تو انہوں نے خود ہی لے لیا، پھر تیزی سے اس پر جھپٹے، اور اسے مار گرایا، تو اس م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2818]
اردو حاشہ:
(1) یہ عمرے کے سفر کی بات ہے۔ اس عمرے کو عمرۃ الحدیبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ 6ہجری میں ہوا۔
(2) وہ محرم نہیں تھے دراصل آپ نے انھیں کسی اور کام پر بھیجا تھا۔
(3) انھوں نے انکار کیا کیونکہ محرم کے لیے شکار کرنا بھی منع ہے اور کسی شکار میں تعاون کرنا بھی حرام ہے۔
(4) اگر محرم نے خود شکار نہ کیا ہو اور نہ شکار ہی میں کچھ تعاون کیا ہو تو وہ محرم اس شکار کا گوشت کھا سکتا ہے بشرطیکہ شکار کرنے والا اور ذبح کرنے والا حلال ہو، محرم نہ ہو۔ بعض دوسری احادیث میں یہ شرط بھی ہے کہ شکار کرنے والے شخص نے وہ شکار محرم کے لیے نہ کیا ہو بلکہ اپنے لیے کیا ہو، بعد میں وہ بطور تحفہ محرم کو دے تو وہ کھا سکتا ہے۔ دیکھیے: (مسند احمد: 5/ 302، وجامع الترمذي، الحج، حدیث: 849) یہ احادیث صحیح ہیں، لہٰذا یہ شرط بھی ضروری ہے۔ احناف بلا وجہ اس شرط کو ضروری نہیں سمجھتے مگر اس طرز عمل سے بہت سی احادیث عمل سے رہ جائیں گی جو یقینا غیر مناسب بات ہے۔ ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔
(5) اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔
(6) مجتہد اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کرے گا اگرچہ اس کی رائے کی مخالفت کی گئی ہو۔
(7) جب کسی مسئلے میں اختلاف واقع ہو جائے تو نص کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2818   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 847  
´محرم شکار کا گوشت کھائے اس کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ آپ جب مکے کا کچھ راستہ طے کر چکے تو وہ اپنے بعض محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے جب کہ ابوقتادہ خود غیر محرم تھے، اسی دوران انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا، تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دے دیں تو ان لوگوں نے اسے انہیں دینے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا۔ تو ان لوگوں نے اسے بھی اٹھا کر دینے سے انکار کیا تو انہوں نے اسے خود ہی (اتر کر) اٹھا لیا اور شکار کا پیچھا کیا اور اسے مار ڈالا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 847]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خشکی کا شکار اگر کسی غیر احرام والے نے اپنے لیے کیا ہو اور محرم نے کسی طرح کا تعاون اس میں نہ کیا ہو تو اس میں اسے محرم کے لیے کھانا جائز ہے،
اور اگر کسی غیر محرم نے خشکی کا شکار محرم کے لیے کیا ہو یا محرم نے اس میں کسی طرح کا تعاون کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 847   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:428  
428- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب تک قاحہ (نامی جگہ) پر پہنچے، تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے احرام باندھا ہوا تھا، اور کچھ نے احرام نہیں باندھا ہوا تھا۔ اس دوران میں نظر اپنے ساتھیوں پر پڑی، تو وہ ایک دوسرے کو کوئی اشارہ کر رہے تھے۔ میں نے غور سے جائزہ لیا تو وہاں ایک نیل گائے تھی، میں نے اپنے گھوڑے پر زین رکھی اس پر سوار ہوا۔ میں نے اپنا نیزہ پکڑا تو میری چھڑی گرگئی، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم مجھے اسے پکڑاؤ، وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم کسی بھی حوالے سے تمہاری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:428]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حالت احرام میں تمام ممنوع کام سے کلی اجتناب کرنا چاہیے تا کہ حج وعمرے کا ثواب حاصل ہو، اگر ان شرائط کی پابندی نہ کی تو حج و عمرہ بے فائدہ رہے گا۔ نیز اس حدیث میں اتباع قرآن و حدیث کو لازم پکڑنے پر زبردست دلیل ہے۔ مومن کو نہ صرف سفر حج یا سفر عمرہ میں اتباع قرآن و حدیث کرنی چاہیے، بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن و حدیث کوملحوظ رکھنا چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 428   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1824  
1824. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے روانہ ہوئے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ہمراہ نکلے۔ آپ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو دوسرے راستے سے بھیج دیا۔ ان میں ابو قتادہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا: تم سمندر کا کنارہ اختیار کرو حتی کہ ہم آملیں۔ وہ دریا کے کنارے چلتے رہے۔ جب وہ لوٹے تو ان سب نے احرام باندھ رکھا تھا لیکن حضرت ابوقتادہ ؓ نے احرام نہیں باندھا تھا، اس دوران میں کہ وہ چل رہے تھے انھوں نے کئی ایک گاؤخر دیکھے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے اچانک ان پر حملہ کیا تو مادہ گاؤخر کو شکار کر لیا۔ ان کے ساتھی سواریوں سے اترے اور اس کا گوشت کھایا پھر کہنے لگے: ہم تو محرم ہیں، کیا ہم اس طرح شکار کا گوشت کھاسکتے ہیں؟پھر ہم نے اس مادہ گاؤخر کے کے گوشت سے کچھ بچاہوا ٹکڑا لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1824]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حالت احرام والوں کے واسطے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ شکاری کو اشاروں سے اس شکار کے لیے رہ نمائی کرسکیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1824   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5490  
5490. سیدنا ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے، پھر وہ مکہ کے راستے میں ایک جگہ اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے جو حالت احرام میں تھے اور خود انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ اس دوران میں انہوں نے ایک گاؤخر دیکھا تو اسے شکار کرنے کے لیے اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ انہیں کوڑا دے دیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر ان سے اپنا نیزہ مانگا تو وہ بھی اٹھا کر دینے کے لیے تیار نہ ہوئے تاہم انہوں نے خود ہی اٹھایا اور گاؤخر پر حملہ کر کے اسے شکار کر لیا پھر کچھ ساتھیوں نے اس کا گوشت کھالیا اور کچھ حضرات نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جب وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو ایک کھانا تھا جو اللہ تعالٰی نے تمہارے لیے مہیا کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5490]
حدیث حاشیہ:
حالت احرام میں کسی دوسرے کا شکار کیا ہوا جانور کھانا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5490   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5491  
5491. سیدنا ابو قتادہ ؓ ہی سے روایت ہے مگر اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کا کچھ گوشت بچا ہوا ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5491]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث کے لانے کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ شکار کو مشغلہ کے طور پر اختیار کرنا جائز ہے مگر یہ مشغلہ ایسا نہ ہو کہ فرائض اسلامیہ کی ادائیگی میں سستی کرنے کا سبب بن جائے۔
اس صورت میں یہ مشغلہ بہتر نہ ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5491   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1824  
1824. حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے روانہ ہوئے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ہمراہ نکلے۔ آپ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو دوسرے راستے سے بھیج دیا۔ ان میں ابو قتادہ ؓ بھی تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا: تم سمندر کا کنارہ اختیار کرو حتی کہ ہم آملیں۔ وہ دریا کے کنارے چلتے رہے۔ جب وہ لوٹے تو ان سب نے احرام باندھ رکھا تھا لیکن حضرت ابوقتادہ ؓ نے احرام نہیں باندھا تھا، اس دوران میں کہ وہ چل رہے تھے انھوں نے کئی ایک گاؤخر دیکھے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے اچانک ان پر حملہ کیا تو مادہ گاؤخر کو شکار کر لیا۔ ان کے ساتھی سواریوں سے اترے اور اس کا گوشت کھایا پھر کہنے لگے: ہم تو محرم ہیں، کیا ہم اس طرح شکار کا گوشت کھاسکتے ہیں؟پھر ہم نے اس مادہ گاؤخر کے کے گوشت سے کچھ بچاہوا ٹکڑا لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1824]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا آغاز بایں الفاظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ حج کی نیت سے عازم سفر ہوئے، یہ کسی راوی کو وہم ہوا ہے کیونکہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جم غفیر تھا اور ان میں سے کوئی ساحل سمندر کے راستے سے نہیں گیا بلکہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آنے کے لیے جو شاہراہ عام تھی اسی پر چلتے رہے۔
یہ عمرۂ حدیبیہ کا واقعہ ہے جیسا کہ خود حضرت ابو قتادہ ؓ سے اس کی وضاحت مروی ہے۔
اگر حج کو لغوی معنی میں لیا جائے تو صحیح ہے کیونکہ اس کے معنی قصد کرنے کے ہیں، عمرے میں بھی بیت اللہ کا قصد ہوتا ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر محرم کو شکار کی نشاندہی کرے یا اس کی طرف اشارہ کرے۔
اگر کسی نے شکار کی طرف اشارہ کر دیا اور غیر محرم نے اسے شکار کر لیا تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں لیکن محرم پر اس سلسلے میں کوئی تاوان نہیں ہو گا جیسا کہ امام مالک اور امام شافعی ؒ کا موقف ہے۔
(فتح الباري: 39/4)
واللہ أعلم (3)
محرم کے لیے شکار کرنا جائز نہیں۔
ہاں، اگر شکاری جانور محرم پر حملہ کر دے اور وہ اپنا دفاع کرتے ہوئے اسے مار دے تو اس صورت میں بھی اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا۔
(فتح الباري: 41/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1824   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5491  
5491. سیدنا ابو قتادہ ؓ ہی سے روایت ہے مگر اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کا کچھ گوشت بچا ہوا ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5491]
حدیث حاشیہ:
شکار کھیلنے والا انسان آزاد ہوتا ہے۔
نماز باجماعت سے محرومی کے علاوہ علماء اور نیک لوگوں کی صحبت سے بھی محروم رہتا ہے۔
اس کا نتیجہ غفلت، بے رحمی اور قساوت قلب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں شکار کے احکام بیان کیے ہیں وہاں آخر میں فرمایا ہے:
اللہ سے ڈرتے رہو۔
بےشک اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
اس لیے حسب طلب و ضرورت شکار کرنا اور اس کی تلاش میں نکلنا معیوب نہیں، البتہ معیوب یہ امر ہے کہ انسان دینی اور دنیوی فرائض سے غافل ہو جائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5491   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.