صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
The Book of Divorce
42. بَابُ الْمُطَلَّقَةِ إِذَا خُشِيَ عَلَيْهَا فِي مَسْكَنِ زَوْجِهَا أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيْهَا، أَوْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا بِفَاحِشَةٍ:
42. باب: وہ مطلقہ عورت جس کے شوہر کے گھر میں کسی (چور وغیرہ یا خود شوہر) کے اچانک اندر آ جانے کا خوف ہو یا شوہر کے گھر والے بدکلامی کریں تو اس کو عدت کے اندر وہاں سے اٹھ جانا درست ہے۔
(42) Chapter. If a divorced lady is afraid that she may be attacked in her husband’s house or that she may abuse her husband’s family (she has the right to leave her husband’s house).
حدیث نمبر: 5327
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني حبان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا ابن جريج، عن ابن شهاب، عن عروة،" ان عائشة انكرت ذلك على فاطمة".(موقوف) حَدَّثَنِي حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ،" أَنَّ عَائِشَةَ أَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ".
مجھ سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس بات کا (کہ مطلقہ بائنہ کو «نفقة وسكنى» نہیں ملے گا) انکار کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated 'Urwa: Aisha disapproved of what Fatima used to say.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 245


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5327 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5327  
حدیث حاشیہ:
جو وہ کہتی تھی کہ تین طلاق والی کے لیے نہ مسکن ہے نہ خرچہ۔
حدیث سے ترجمہ باب نہیں نکلتا مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عادت کے موافق اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تیری زبان نے تجھ کو نکلوایا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5327   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5327  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5327 کا باب: «بَابُ الْمُطَلَّقَةِ إِذَا خُشِيَ عَلَيْهَا فِي مَسْكَنِ زَوْجِهَا أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيْهَا، أَوْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا بِفَاحِشَةٍ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعے کئی ایک مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور بہت سے مسائل کی طرف آپ نے اشارہ بھی فرمایا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے معتدہ کے جواز خروج کے لئے دو علتیں بیان فرمائی ہیں:
ایک «الخوف عليها» اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جس سے عورت کو خوف ہو چاہے وہ اس کا خاوند ہی کیوں نہ ہو جس نے اسے طلاق دی ہے،
دوسری علت «الخوف منها» اس عورت کی زبان درازی سے خوف ہو،
لیکن ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کو نقل فرمایا ہے اس میں ذیلی علت کا ذکر ہے لیکن دوسری علت کا ذکر نہیں ہے۔ اسی لئے بظاہر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ اپنی عادت کے مطابق حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جہاں واضح طور پر حدیث اور باب کی موافقت موجود ہے،

چنانچہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقال شارح التراجم ذكر فى الترجمة الخوف عليها، والخوف منها، والحديث يقتضي الاول، و قاس الثاني عليه، ويؤيد قول عائشة لها فى بعض الطرق أخرجك هذا اللسان فكان الزيادة لم تكن على شرطه، فضمنها للترجمة قياساً .» [ارشاد الساري: 101/12]
یعنی شارحین کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب میں «الخوف اليها» اور «الخوف منها» ان دونوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے، مگر حدیث صرف متقاضی ہے، «الخوف اليها» کی اور «الخوف منها» (کہ فاطمہ بنت قیس کی زبان درازی سے خوف ہو) تو اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے قیاس فرمایا ہے، جس کی مؤید عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے، جو بعض طرق میں مروی ہے کہ تمہیں تمہاری زبان نے نکلوایا ہے۔ پس یہ حدیث کی زیادتی امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر مبنی ہے تو اسے ترجمۃ میں قیاس کے ذریعے ضم کر دیا۔

واضح ہوا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں دو باتیں نقل ہوئیں ایک ان کا گھر ویران تھا، اس گھر میں کسی آدمی کے آنے کا خطرہ تھا، اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس کا ذکر موصولاً فرمایا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً، در اصل امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے ذریعے ایک شدید اختلاف کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں، جن روایات میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا بائنہ کے لئے نفقہ اور سکنی پر اختلاف وارد ہوا ہے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے تو آپ رحمہ اللہ اس اختلاف میں کون سا مسئلہ راجح ہے اس کا اشارہ بہت ہی دقیق الفاظوں میں فرما رہے ہیں، ترجمۃ الباب پر غور کیجئے۔

ترجمۃ الباب میں «المطلقة اذا خشي عليها» «خشي» مجہول کا صیغہ ہے اور اس کا نائب فاعل «أن يقتحم عليها» ہے، یعنی جب اس پر جب کسی کے گھس آنے کا خوف ہو، لہٰذا یاد رکھا جائے کہ «اقتحام» کے معنی ہیں، بغیر اجازت کسی پر داخل ہونے کے ہیں اور اس نقطہ کو بھی یاد رکھیں کہ ترجمۃ الباب میں جو الفاظ ہیں «على اهله» ہے، «ايما على اهل المطلق» اس صورت میں «اهله» کی ضمیر طلاق دینے والے کی طرف راجع ہو گی۔ [فتح الباري لابن حجر: 106/10]، [ارشاد الساري: 100/12]

اب ترجمۃ الباب میں اجنبی لوگوں کے داخل ہونے کے خوف کے ساتھ ساتھ اس خاوند کا بھی خوف مراد ہو گا جس نے طلاق دی۔

غور فرمائیں، امام بخاری رحمہ اللہ دوسرے غیر محرموں کے خوف کے ساتھ ساتھ اس شوہر کا بھی ذکر فرما رہے ہیں جس نے طلاق دی اور یہ مسلم قاعدہ ہے کہ شوہر سے بیوی کا اس وقت پردہ قائم ہو گا جب طلاق بائنہ عورت کو دی گئی ہو گی اور نہ ہی اس عورت کے لئے طلاق بائنہ کے بعد نفقہ ہو گا اور نہ ہی سکنی۔ تفصیل کے لئے مراجعت کریں: [زاد المعاد لابن القيم: 73/5۔ 466]

لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے ہی دقیق انداز سے یہ واضح فرمایا کہ جب عورت کو اس کے خاوند کا گھر میں داخل ہونے کا خوف ہو تو وہ وہاں سے جہاں عدت گزار رہی ہو اٹھ جائے، لہٰذا یہ اشارہ ہے کہ یہ حکم اس عورت کے لئے ہے جسے طلاق بائنہ دی گئی ہو، نہ اس عورت کے لئے جسے طلاق رجعی دی گئی ہو، کیوں کہ طلاق رجعی میں خاوند اپنی بیوی کے پاس آ جا سکتا ہے، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے ہی اجتہادانہ اور دقیقانہ الفاظوں سے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے موقف کو ثابت فرمایا ہے کہ بائنہ عورت کے لئے نہ ہی نفقہ ہے اور نہ ہی سکنی، کیونکہ دوسرے لوگوں کے خوف میں اس شوہر کو بھی داخل کیا گیا ہے جس نے اسے تین طلاقیں دے دیں، اگر خاوند کے گھر میں آنے کی اجازت ہوتی طلاق بائنہ کے بعد تو پھر ترجمۃ الباب میں جو خوف کے الفاظ ہیں ان کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ «فافهم!»

فائدہ: طلاق بائنہ کے بعد عورت کے لئے نہ نفقہ ہو گا اور نہ ہی سکنہ، اس مسئلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اختلاف اور راجح موقف:
راجح موقف کی وضاحت سے قبل ہم فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا ذکر پہلے کریں گے جس کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے خلاف قرآن سمجھا۔

امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«عن فاطمة بنت قيس قالت ان زوجها طلقها ثلثاً فلم يجعل لها رسول الله صلى الله عليه وسلم سكني ولا نفقه قالت لي رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا حللت فأذيني فاذنته فخطبها معاوية وأبوجهم واسامة بن زيد رضي الله عنهم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اما معاوية فرجل ترب لا مال له واما أبوجهم فرجل ضراب النساء ولكن اسامة . . . . . . . .» [صحيح مسلم مع شرح نووي، كتاب الطلاق، رقم: 1480]
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں، ان کے شوہر نے تیں طلاقیں دیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ہی انہیں گھر دلوایا اور نہ ہی خرچ اور فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھے خبر دینا (عدت پوری ہونے کے بعد) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور مجھے پیغام (نکاح کا) معاویہ رضی اللہ عنہ اور ابوجہم رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ نے دیا، سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ تو مفلس ہے کہ اس کے پاس مال نہیں ہے اور ابوجہم عورتوں کو بہت مارنے والا ہے، سوائے اسامہ کے سو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اسامہ، اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمابرداری میرے لئے بہتر ہے، پھر میں نے ان سے نکاح کیا اور عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں۔
مندرجہ حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ کے علاوہ امام احمد رحمہ اللہ نے مسند میں رقم 47349، سنن الدار قطنی: 33/4، مصنف ابن ابی شیبہ 64/5 اور امام بیہقی کی سنن الکبری میں نکالا ہے۔
مذکورہ حدیث پر کئی اعتراض وارد کئے جاتے ہیں، مثلاً
الف: عمر رضی اللہ عنہ کا قول کہ ہم ایک عورت کی وجہ سے کتاب اللہ نہیں چھوڑ سکتے۔
ب: فاطمہ رضی اللہ عنہا بھول گئی تھیں۔
ج: اسی وجہ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کی مخالفت فرمائی،
ان اعتراضات کے جوابات درج ذیل ہیں: -
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا استدلال سورۃ طلاق کی آیت کی وجہ سے تھا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ» [الطلاق: 65/1]
اے نبی! (اپنی امت سے کہو) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا رب ہے، ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود) نکلیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کربیٹھیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا استدلال مندرجہ آیت سے تھا، آپ کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو گھر سے نکالنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ انہی وجوہا ت کی بناء پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی بات کی تردید فرمائی، حالانکہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا بیان کچھ اور مسئلے کے ساتھ تھا اور آیت قرآن کسی اور مسئلے کے ساتھ مشروط ہے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں مسائل کو ایک سمجھے اور یہی حال امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی تھا۔
آیت مبارکہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جن کی راویہ خود فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ہیں) ان دونوں آیت اور حدیث کا تعلق مختلف عورتوں کے ساتھ ہے، فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث طلاق بائنہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے کی خاوند تین طلاق دینے کے بعد اس کی ذمہ داری عورت کی نفقہ اور سکنی کی باقی نہیں رہتی اور سورۃ الطلاق کی آیت اس خاتون کے ساتھ ہے جسے طلاق رجعی دی گئی ہو۔

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ تفصیلی گفتگو فرماکر خلاصہ لکھتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہا نے جو فاطمہ بن قیس رضی اللہ عنہا کی تردید میں سورۃ الطلاق کی آیت فرمائی تھی، دراصل اس قسم کی تمام آیات طلاق رجعیہ کے ساتھ مخصوص ہیں۔ اور فاطمہ بن قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کا تعلق طلاق بائنہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ [زاد المعاد: 79/5 - 478]

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا موقف اس سلسلے میں مضبوط تھا اور ترجیح بھی آپ کی بیان کردہ حدیث کو ہی ہو گی اور اس موقع پر محققین نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس استدلال کو کمزور گردانا ہے، کیوں کی حقیقتاً فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کتاب اللہ کے خلاف نہیں تھیں مگر اس کے برعکس عمر رضی اللہ عنہ کا موقف درست نہ تھا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے مقابلے میں، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ہم ایک عورت کی بات پر کتاب اللہ کے کسی حکم کو نہیں چھوڑیں گے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو نقل کرنے کے بعد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جسے امام ابن القیم رضی اللہ عنہ نے زاد المعاد میں نقل فرمایا کہ:
«وقد انكر الامام احمد رحمه الله هذا من قول عمر رضى الله عنه، وجعل يتبسم ويقول: أين فى كتاب الله إيجاب السكني و النفقه للمطلقه ثلاثا .»
یقیناًً امام احمد رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے انکار کیا ہے اور آپ تبسم فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتاب اللہ میں یہ حکم کہاں پر ہے کہ طلاق ثلاثہ والی عورت کے لئے نفقہ اور سکنی ہو گا؟

ابن القیم مزید لکھتے ہیں کہ:
«وأنكرته قبله الفقيهة الفاضلة فاطمة، وقالت بيني وبينكم كتاب الله .» [زاد المعاد: 478/5]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پہلے فقیہ فاضلہ خاتون فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے موقف کا انکار فرمایا اور کہتی تھیں کہ ہم میں کتاب اللہ کافی ہے کیونکہ طلاق بائنہ کے لئے نفقہ اور سکنی نہیں ہو گا، یہی کتاب اللہ کا فیصلہ ہے۔
اور یہ بات کہنا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھول گئی تھیں تو یہ صرف گمان ہے، کیوں کہ ان کا بھولنا کسی بھی حوالے سے ثابت نہیں ہے، اس لئے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تائید ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے سنن الدارقطنی میں ذکر فرمایا ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
«انما النفقة و السكني للمرأة اذا كان لزوجها عليها الرجعة .» [سنن دارقطني، كتاب الطلاق، رقم الحديث: 3901، اسناد حسن]
رہائش اور نفقہ اس عورت کے لئے ہے جس کے خاوند کے پاس رجعت کا اختیار باقی ہو۔

اس صریح حدیث کے ذکر کے بعد امام ابن قیم رحمہ اللہ تعجب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«فيا عجباً! كيف يترك هذا المانع الصريح الذى خرج بين شفتي النبى صلى الله عليه وسلم .»
بہت عجیب ہے کہ اس صریح بات کو کس طرح چھوڑا جا رہا ہے جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں مبارک سے ادا ہوئی۔
لہٰذا صحیح بات یہی ہے جس کا ذکر فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں کیونکہ آپ اس مسئلے کی بنفس نفیس خود شاہد ہیں، لہٰذا متکلم اپنی منشاء کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے اور اس مسئلے پر صحیح موقف فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا ہی ہے، چنانچہ امام دارقطنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«بل السنة بيد فاطمة بنت قيس قطعاً»
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے مسئلے کے لئے قطعیت کے ساتھ سنت موجود تھی۔

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا خود اس مسئلے کی شاہد تھیں کہ تین طلاقوں کے بعد عورت کے لیے خاوند کی طرف سے نہ ہی نفقہ اور نہ ہی سکنہ ہے، اس مسئلہ کا علم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہ ہوا، اب ان حالات میں عمل فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو ترک کرنا ہو گا، کیونکہ آپ کے پاس اس مسئلہ میں کوئی بھی نص نہیں تھی۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے کسی شخص کی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے معارض کروائے،جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی مسئلہ پر سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا حدیث کے ذریعے اور اس سائل نے کہا کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما تو یوں کہتے ہیں (اس بات پر) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دی جائے میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سناتا ہوں اور تم مجھے (حدیث کے مقابل) ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کرتے ہو۔

ان تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ طلاق بائنہ کے بعد خاوند کے ذمے نہ ہی عورت کا نفقہ ہو گا اور نہ ہی سکنی۔ سیدنا عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا استدلال جس آیت سے تھا اس آیت کا تعلق طلاق رجعی کے ساتھ ہے نہ کہ طلاق بائنہ کے ساتھ۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 113   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5327  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کا موقف تھا کہ جس عورت کو تیسری طلاق مل جائے اس کے لیے خاوند کے ذمے رہائش یا خرچہ نہیں ہے اور اس انکار کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے سختی کے ساتھ اس موقف سے انکار کیا بلکہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس موقف کے متعلق اپنی شدید ناگواری کا اظہار کرتی تھیں۔
اس واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے خاوند ابو عمر بن حفص رضی اللہ عنہ نے انھیں آخری طلاق دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فتویٰ پوچھنے آئیں کہ میں اپنے گھر سے نکل کر دوسری جگہ عدت گزار سکتی ہوں یا نہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک نابینا شخص حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہونے کی اجازت دی، لیکن مروان بن حکم مطلقہ عورت کے گھر سے نکلنے کا انکار کرتے تھے۔
حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس بات کا شدت سے انکار کیا۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3702) (2)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ مطلقہ عورت اگر دوران عدت میں محسوس کرے کہ اس کے گھر میں کوئی اچانک گھس سکتا ہے تو کسی دوسری جگہ عدت پوری کرسکتی ہے، اسی طرح اگر عورت خاوند کے اہل خانہ سے بدتمیزی کرتی ہو تو انھیں حق ہے کہ وہ اسے وہاں سے نکال دیں اور وہ کسی دوسری جگہ عدت کے ایام پورے کرے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5327   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.