(موقوف) حدثنا عبد الله بن يوسف اخبرنا مالك عن عبد الرحمن بن القاسم عن ابيه عن عائشة قالت" عاتبني ابو بكر وجعل يطعنني بيده في خاصرتي فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم وراسه على فخذي".(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ" عَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِي".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن قاسم نے، انہیں ان کے والد قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ(ان کے والد) ابوبکر رضی اللہ عنہ ان پر غصہ ہوئے اور میری کوکھ میں ہاتھ سے کچوکے لگانے لگے لیکن میں حرکت اس وجہ سے نہ کر سکی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر رکھا ہوا تھا۔
Narrated `Aisha: Abu Bakr admonished me and poked me with his hands in the flank, and nothing stopped me from moving at that time except the position of Allah's Apostle whose head was on my thigh.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 177
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5250
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5250 کا باب: «بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِصَاحِبِهِ هَلْ أَعْرَسْتُمُ اللَّيْلَةَ: وطعن الرجل البنته فى الخاصرة عند العتاب» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اس کے دو اجزا ہیں: الف: «قول الرجل لصاحبه هل اعرستم الليلة» ب: «وطعن الرجل البنته فى الخاصرة عند العتاب» ان دو اجزاء میں دوسری جزء کا تعلق تحت الباب جو حدیث ہے اس سے واضح ہے، مگر ترجمۃ الباب کے پہلے جزء سے حدیث کی کوئی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”ترجمۃ الباب میں جو پہلا مسئلہ ہے وہ صحیح بخاری کے اکثرنسخوں میں نہیں ہے۔“[الكواكب الدراري: 140/19]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «زاد ابن بطال فى شرحه هنا وقول الرجل لصاحبه هل أعرستم......؟»[فتح الباري لابن حجر: 596/10] “”یعنی «باب قول الرجل لصاحبه.....» یہ الفاظ ابن بطال نے اپنی شرح میں ذکر کئے ہیں۔“ لہٰذا اگر یہ اضافہ ابن بطال نے کیا ہے تو اس پر کوئی اشکال نہیں، لیکن غور کرنے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ اضافہ نہیں ہے بلکہ ترجمۃ الباب ہی کا حصہ ہے، کیونکہ یہاں پر اس حدیث کی طرف اشارہ مقصود ہے جس میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے، جسے کتاب العقیقہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ (جس کا ذکر آگے آ رہا ہے)۔ ان تناظر میں ترجمۃ الباب کا حدیث سے کیا تعلق ہو گا؟ اور ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا کون سا پہلو ہو گا؟ اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہی ترجمۃ البالب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: «أراد اثبات ذالك قياساً على ما ذكر فى الحديث أن ابابكر دخل عليهما والنبي صلى الله عليه وسلم على فخزها، فلما لم يمنعه ذالك علم جواز سؤاله عن الاعراس بالطريق الاولى لانه ادون من زالك وأسير.»[لامع الداري 338/9] ”امام بخاری رحمہ اللہ نے قیاس کے ذریعے ترجمۃ الباب کا معنی حدیث سے ثابت فرمایا ہے، حدیث میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک سر امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر رکھا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں ان کو آنے سے منع نہ کیا تو اس سے اعراس کے متعلق سوال کا جواز بطریق اولیٰ معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ سوال کا درجہ اس حالت سے کم ہی معلوم ہوتا ہے۔“
صاحب لامع الداری کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ران پر سر رکھنے سے ترجمۃ الباب «هل أعرستم الليلة» کا جواز ثابت ہوتا ہے، مگر بعض اہل علم نے مناسبت کے بارے میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے اس جز «هل أعرستم الليلة» پر کوئی حدیث پیش نہیں فرمائی، بلکہ اسے بیاض ہی چھوڑ دیا۔
چنانچہ حافظ صاحب رقمطراز ہیں: «والذي يظهر أن البخاري أخلي بياضاً، ليكتب فيه الحديث اللائق به، وهو حديث قول النبى صلى الله عليه وسلم لأبي طلحة هل أعرستم الليلة؟ أو شيئاً مما يدل عليه.»[فتح الباري لابن حجر: 294/80] میرے نزدیک جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں مذکورہ مسئلہ کو ذکر فرما کر آگے بیاض ہی چھوڑ دیا تھا کہ وہاں اس مسئلے کے جواز کے لیے کوئی حدیث تحریر کریں، مثلاً سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کا واقعہ معروف ہے کہ ان کے بچے کا انتقال ہو گیا تھا، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع نہیں دی تھی دونوں نے رات گزاری، صبح ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کو بتایا کہ بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے۔ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تو اس موقع پر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: «هل أعرستم الليلة» تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
ہم نے واضح کیا کہ یہ واقعہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العقیقہ میں ذکر فرمایا ہے، غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس قسم کی کوئی حدیث درج فرمانا چاہ رہے تھے، مگر اسے بیاض ہی چھوڑ دیا، بعض اہل علم نے ترجمۃ الباب کو بیاض چھوڑنے کی بھی وجہ ذکر فرمائی ہے۔
چنانچہ صاحب اوجزء المسالک رقمطراز ہیں۔ «وهو راجح عندي فى أمثال هذه المواضع أن الامام البخاري رحمه الله كثيراً ما يخلي الأبواب عن الروايات تشحيذ اللأذهان إشارة إلى انه يثبت بحديث وارد فى صحيحه.»[الابواب و التراجم: 579/5] میرے نزدیک یہ بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ ایسے مقامات پر امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الابواب کے تحت جگہ خالی چھوڑ دیتے ہیں، تاکہ تشحیذ اذہان پیدا ہو اور ایسی جگہیں کثیر ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس بارے میں صحیح حدیث وارد ہے، قاری خود غور و تدبر کر کے اس کے لئے مناسب حدیث نکالے۔ محمد زکریہ کاندھلوی رحمہ اللہ کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس مقام پر تشحیذ اذہان کو پیدا کرنا ہے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «والجامع بينهما أن كلا الامرين مستثنٰي فى بعض الحالات فإمساك الرجل بخاصرة ابنته ممنوع الامثل هذه الحاجة.»[المتوري: ص 296] ”یعنی باپ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی کوکھ پر ہاتھ رکھے، لیکن حالات عتاب میں اس کی اجازت ہے، جیسا کہ حدیث میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حالت عتاب میں ایسا کیا، اسی طرح آدمی کے لئے اپنے ساتھی سے عام حالات میں اس طرح کی بات پوچھنا ممنوع ہے، ہاں اگر دل لگی کی باتیں ہو رہی ہو تو ایسی مخصوص حالت میں پوچھا جا سکتا ہے۔“ ابن المنیر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے ہمیں کئی باتیں معلوم ہوئیں، جن میں سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ باپ حالت عتاب اپنی بیٹی کے خاصرہ پر مار سکتا ہے اور دوسری بات یہ کہ ترجمۃ الباب «هل اعرستم........» کا تعلق ابن المنیر اس طرح نکال رہے ہیں کہ حالت عتاب میں جب خاصرہ پر ہاتھ مارنا جائز ہوا تو اسی طرح مجبوری کی حالت میں یہ سوال کرنا بھی جائز ہوا کہ «هل أعرستم الليلة.»
المتواری کا اختصار بدرالدین بن حجاعۃ نے فرمایا ہے، چنانچہ وہ اپنی کتاب میں ابن المنیر رحمہ اللہ کی بات کو مکمل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ترجمۃ الباب کا پہلا جز «هل اعرستم الليلة؟» اس کی مطابقت سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سے ہے جبکہ ان کے بیٹے نے وفات پائی تھی اور اس کا جواب یہ ہے کہ یہ یہ حالت میں ممنوع ہے، (اپنی بیٹی کے خاصرہ پر ہاتھ رکھنا اور میاں بیوی کے بارے میں مخصوص بات کرنا) مگر حدیث میں یہ دونوں باتیں وارد ہوئی ہے، لیکن یہ دونوں باتیں بحالت عتاب اور غضب میں مخصوص ہیں، (یعنی اس کے علاوہ جائز نہیں ہے) اور اسی طرح سے آدمی کا سوال کرنا اس کے اور اس کی بیوی کے مابین مجامعت کے بارے میں تو یہ جائز نہیں مگر اس حال میں جو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی جو ان کے بیٹے کی وجہ سے انہیں مصائب دامن گیر تھے۔ [مناسبات تراجم البخاري: ص 100]
بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ یہاں پر ایک بہت اہم بات کی طرف توجہ مبذول فرمائی ہے کہ آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ رات کیسے گزاری؟ یہ صرف اسی حالت میں بتائی جا سکتی ہے یا پوچھی جا سکتی ہے جو حالت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، یعنی اس کے علاوہ دل لگی کی باتوں میں ایسی باتیں کرنا حرام ہیں، جو کہ واضح ابن المنیر رحمہ اللہ کا رد ہے، کیونکہ آپ رحمہ اللہ نے دل لگی کے وقت ایسی باتیں کرنے کو مخصوص قرار دیا ہے جو کہ محل نظر ہے۔
رہا یہ کہنا کہ بدرالدین جماعہ رحمہ اللہ نے صرف ”المتواری“ کا اختصار کیا ہے، درست نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات اس میں المتواری پر اضافہ بھی ملتا ہے، اسی لئے امام البلقینی رحمہ اللہ کی کتاب ”کتاب تراجم البخاری“ میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ بدرالدین بن جماعۃ کی کتاب ”مناسبات تراجم البخاری“ میں المتواری پر اضافہ بھی درج کیا ہے، یہ کتاب اس کے بعض مغاربہ پر بھی کلام کرتی ہے۔“ دیکھیے: [مناسبات ابواب صحيح البخاري بعضها لبعض ص 11] یہ حقیر اور عاجز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کو ثابت کرنے کے لئے بہت سارے مسائل کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں جیسا کہ سابقہ اوراق میں لکھا جا چکا ہے کہ یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ تشحیذ اذھان کا مقصد رکھتے ہیں، ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کی طرف بھی اشارہ فرما رہے ہوں، جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الشہادات میں بھی ذکر فرمایا ہے: ”امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ نے ایک خاتون سے نکاح کیا، پھر انہیں طلاق دے دی، اس کے بعد پھر کسی دوسرے شخص نے ان سے نکاح کر لیا، پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے دوسرے شوہر کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ تو ان کے پاس آتے ہی نہیں اور یہ کہ ان کے پاس کپڑے کے پلو جیسا ہے (انہوں نے اپنے پہلے خاوند کے ساتھ دوبارہ نکاح کی خواہش ظاہر کی) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک تم اس (دوسرے شوہر) کا مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لیں۔“[صحيح بخاري، كتاب الطلاق، رقم: 5397]
مندرجہ حدیث میں عورت نے اپنے خاوند کے مخصوص فعل کا ذکر کیا، جس کا تعلق مرد و زن کے ساتھ ہوتا ہے، اب یہاں پر اس خاتون نے مجبوری کی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے اس مسئلہ کو ظاہر فرمایا، جو کہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ میاں بیوی کے مخصوص مسائل کسی مجبوری میں تو بتائے جا سکتے ہیں، وگرنہ نہیں۔۔۔۔ «فانهم ولا تكن من الغافلين.»
اس کے علاوہ اگر غور کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر طلاقیں ان اسباب کے تحت بھی ہوا کرتی ہیں کہ مرد حقوق زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے، اس گھمبیر مسلئے کے حل کے لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی حدیث کو کتاب الطلاق میں ذکر فرمایا ہے اور کمال کی بات یہ بھی ہے کہ کتاب النکاح کے آخر میں اگر اس حدیث کو اس مناسبت کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو مسئلہ واضح ہو جاتا ہے کہ نکاح کے بعد طلاق کی نوبت بسا اوقات مردانہ قوت نہ ہونے کے سبب بھی ہوا کرتی ہے، لہٰذا عورت کا اس امر مجبوری میں اس راز کو بتانا جائز ہو گا تاکہ مسئلہ کا حل نمایاں ہو۔ «والله اعلم»
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5250
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے اپنے ایک سفر کا واقعہ بیان کیا ہے۔ جب ان کا ہار گم ہو گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ہار کی بازیابی کے لیے ایک بے آب و گیاہ میدان میں رکنا پڑا۔ اس دوران میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، بالآخر آیت تیمّم نازل ہوئی۔ اس کی تفصیل امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دوسرے مقام پر بیان فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، التیمم، حدیث: 334)(2) اس عنوان کے دو حصے ہیں: ایک آدمی کا دوسرے ساتھی سے کہنا کہ آج تم نے جماع کیا ہے؟ آدمی کا اپنی بیٹی کے پہلو میں غصے کے وقت ہاتھ مارنا۔ دوسرا حصہ تو ذکر کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے، البتہ پہلے حصے کہ متعلق کوئی دلیل نہیں ذکر کی گئی۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: امام بخاری رحمہ اللہ اس کے متعلق کوئی حدیث لکھنا چاہتے تھے لیکن وقت نہ ملایا شرط کے مطابق روایت نہ مل سکی، اس لیے بیاض چھوڑ دیا۔ (فتح الباري: 428/9) لیکن ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس اعتراض کے درج ذیل دو جواب ہیں: ٭اس حدیث میں ہے کہ میری ران پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک رکھا ہوا تھا۔ میاں بیوی کو اس حالت میں دیکھنا جائز ہے تو یہ پوچھنا بھی جائز ہے کہ آج رات تم ہم بستر ہوئے تھے یا نہیں۔ بنیادی طور پر ان دونوں معاملات کا تعلق شرم و حیا سے ہے، جب ایک جائز ہے تو دوسرا بھی جائز ہونا چاہیے۔ ٭بسا اوقات امام بخاری رحمہ اللہ پڑھنے والوں کی ذہنی صلاحیت بڑھانے کے لیے حدیث ذکر نہیں کرتے تاکہ قارئین خود اپنے ذہن پر زور دے کر اس خلا کو پر کریں، چنانچہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے کہ ان کا بیٹا فوت ہو گیا تو انھوں نے اپنے بیٹے کی وفات کے موقع پر اپنے خاوند سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے عجیب و غریب معاملہ کیا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جب صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے آج رات جماع کیا ہے؟“ ابو طلحہ نے کہا: جی ہاں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العقیقة، حدیث: 5470) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو کئی مرتبہ اپنی صحیح میں بیان کیا ہے، اس کے بعد یہ کہنا کہ آپ کو اپنی شرط کے مطابق کوئی حدیث نہ مل سکی اس لیے بیاض چھوڑ دیا اسے کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے، پھر صحیح بخاری لکھنے کے بعد (90) نوے ہزار شاگردوں کو اس صحیح بخاری کا درس دیا تو اس دعویٰ کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وقت نہ مل سکا اس لیے عنوان کے مطابق حدیث ذکر نہ کر سکے۔ (3) بہرحال ہمارے نزدیک امام بخاری رحمہ اللہ نے بطور قیاس اس عنوان کے پہلے حصے کو ثابت کیا ہے یا قارئین کو خود غور کرنے کی ترغیب دینے کے لیے اسے حدیث کے بغیر رہنے دیا ہے تا کہ قاری خود اپنی استعداد کو بروئے کار لائے اور مناسب حدیث درج کرے۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5250