صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
4. بَابُ كَثْرَةِ النِّسَاءِ:
4. باب: بیک وقت کئی بیویاں رکھنے کے بارے میں۔
(4) Chapter. About (marrying) several women.
حدیث نمبر: 5069
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا علي بن الحكم الانصاري، حدثنا ابو عوانة، عن رقبة، عن طلحة اليامي، عن سعيد بن جبير، قال: قال لي ابن عباس: هل تزوجت؟ قلت: لا، قال:" فتزوج فإن خير هذه الامة اكثرها نساء".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ رَقَبَةَ، عَنْ طَلْحَةَ الْيَامِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ تَزَوَّجْتَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ:" فَتَزَوَّجْ فَإِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَكْثَرُهَا نِسَاءً".
ہم سے علی بن حکم انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے رقبہ نے، ان سے طلحہ الیامی نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شادی کر لو کیونکہ اس امت کے بہترین شخص جو تھے (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کی بہت سی بیویاں تھیں۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ اس امت میں اچھے وہی لوگ ہیں جن کی بہت عورتیں ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sa`id bin Jubair: Ibn `Abbas asked me, "Are you married?" I replied, "No." He said, "Marry, for the best person of this (Muslim) nation (i.e., Muhammad) of all other Muslims, had the largest number of wives."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 7


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5069 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5069  
حدیث حاشیہ:
حد شرعی کے اندر بیک وقت چار عورتیں رکھی جا سکتی ہیں بشرطیکہ ان میں انصاف کیا جاسکے ورنہ صرف ایک ہی بیوی چاہئے۔
بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے اس امت میں اچھے وہی لوگ ہیں جن کی عورتیں بہت ہوں۔
جن کا مطلب حد شرعی کے اندراندر ہے کہ اگر ایک مرد کو اگر ضرورت ہو اور وہ انصاف کے ساتھ سب کی دل جوئی کر سکے اور حق حقوق ادا کر دے تو صرف چار عورتوں کی اجازت ہے چار سے زائد بیک وقت نکاح میں رکھنا اسلام میں قطعا حرام ہے۔
بلکہ قرآن مجید نے صاف اعلان کیا ہے ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾ اگر تم کو ڈر ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو بس صرف ایک ہی عورت پر اکتفا کرو۔
اس صورت میں ایک سے زیادہ ہرگز نہ رکھو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخری حصہ میں بیک وقت اپنے گھر میں نو بیویاں رکھی تھیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے اس سے کوئی یہ سمجھے کہ آپ کی نیت شہوت رانی یا عیاشی کی تھی تو ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے کیونکہ عین شباب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر قناعت کی تھی اخیر وقت میں نو بیویاں رکھنے میں دینی و دنیاوی بہت سے مصالح تھے جن کی تفصیل ملاحظہ کرنے کے شائقین اس مقام پر شرح وحیدی کا مطالعہ فرمائیں۔
نو کی تعداد میں کئی بوڑھی بیوہ عورتیں تھیں جن کی محض ملی مفاد کے تحت آپ نے نکاح میں قبول فرما لیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5069   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5069  
حدیث حاشیہ:
(1)
شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک انسان کو بیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے بشرطیکہ ان میں انصاف کیا جائے اور انسان ان کے حقوق ادا کرنے کی ہمت رکھتا ہو، البتہ بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنا حرام ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخر میں نو بیویاں رکھی تھیں۔
اتنی بیویاں رکھنے کا مقصد نعوذ باللہ شہوت رانی یا عیاشی نہ تھا بلکہ دینی اور بہت سے دنیاوی مصالح کار فرما تھے۔
ان میں بھی کئی ایک بوڑھی بیوہ تھیں جنھیں صرف ملی اور قومی مفاد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میں قبول فرما لیا تھا۔
(3)
اس پر بھی بعض مغرب زدہ آزاد خیال عورتوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مرد تو چار چار عورتوں سے شادی کرے اور عورت صرف ایک ہی شوہر پر اکتفا کرے؟ اس قسم کا اعتراض تو کوئی گھٹیا اور انتہائی بے حیا عورت ہی کرسکتی ہے کہ اسے بھی بیک وقت چار مردوں سے شادی کی اجازت ہونی چاہیے جبکہ اسلام کے عادلانہ قانون میں اگر مرد چار بیویاں رکھ لے تو اس سے نسب میں کوئی اختلاط پیدا نہیں ہوتا اور نہ وارثت کے مسائل میں کوئی الجھن ہی پیش آتی ہے۔
اس کے برعکس اگر عورت دو مردوں سے اختلاط رکھے تو اس سے نسب بھی مشکوک ہو جاتا ہے کیونکہ نسب کا تعلق مرد سے ہے، عورت سے نہیں۔
اور میراث کے مسائل میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اگر عورت کو چار شوہر رکھنے کی اجازت دی جائے تو وہ رہے گی کس کے گھر میں؟ اس کے نان و نفقہ اور اس کی اولاد کے اخراجات کون برداشت کرے گا؟ اس اعتراض کو ہم ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں کہ جنسی خواہش جیسے انسانوں میں ہوتی ہے ایسے حیوانات میں بھی ہے اور مرد کو تو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے جبکہ ہم گوالوں کو دیکھتے ہیں کہ انھوں نے دودھ کے لیے بیس بیس بھینسیں رکھی ہوتی ہیں اور ان کے ہاں بھینسا صرف ایک ہوتا ہے۔
کیا ایسا بھی کسی نے دیکھا ہے کہ کسی گوالے نے بھینسے تو بیس رکھے ہوں اور بھینس صرف ایک ہی ہو؟ اب خود ہی غور فرمائیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5069   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.