الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
The Book of The Virtues of The Quran
34. بَابٌ في كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ:
34. باب: کتنی مدت میں قرآن مجید ختم کرنا چاہئے؟
(34) Chapter. What is the proper period for reciting the whole Quran.
حدیث نمبر: 5054
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق، اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن شيبان، عن يحيى، عن محمد بن عبد الرحمن مولى بني زهرة، عن ابي سلمة، قال: واحسبني قال: سمعت انا من ابي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرإ القرآن في شهر، قلت: إني اجد قوة، حتى قال: فاقراه في سبع ولا تزد على ذلك".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى بَنِي زُهْرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: وَأَحْسِبُنِي قَالَ: سَمِعْتُ أَنَا مِنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ، قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، حَتَّى قَالَ: فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ".
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ بن موسیٰ نے خبر دی، انہیں شیبان نے، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں بنی زہرہ کے مولیٰ محمد بن عبدالرحمٰن نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، یحییٰ نے کہا اور میں خیال کرتا ہوں شاید میں نے یہ حدیث خود ابوسلمہ سے سنی ہے۔ بلاواسطہ (محمد بن عبدالرحمٰن کے) خیر ابوسلمہ نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ہر مہینے میں قرآن کا ایک ختم کیا کرو میں نے عرض کیا مجھ کو تو زیادہ پڑھنے کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا سات راتوں میں ختم کیا کرو اس سے زیادہ مت پڑھ۔

Narrated `Abdullah bin `Amr: Allah's Apostle said to me, "Recite the whole Qur'an in one month's time." I said, "But I have power (to do more than that)." Allah's Apostle said, "Then finish the recitation of the Qur'an in seven days, and do not finish it in less than this period."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 61, Number 574


   صحيح البخاري5054عبد الله بن عمرواقرأه في سبع ولا تزد على ذلك
   صحيح البخاري5053عبد الله بن عمروفي كم تقرأ القرآن
   صحيح مسلم2732عبد الله بن عمرواقرأ القرآن في كل شهر قال قلت إني أجد قوة قال فاقرأه في عشرين ليلة قال قلت إني أجد قوة قال فاقرأه في سبع ولا تزد على ذلك
   جامع الترمذي2946عبد الله بن عمرواختمه في شهر قلت إني أطيق أفضل من ذلك قال اختمه في عشرين قلت إني أطيق أفضل من ذلك قال اختمه في خمسة عشر قلت إني أطيق أفضل من ذلك قال اختمه في عشر قلت إني أطيق أفضل من ذلك قال اختمه في خمس قلت إني أطيق أفضل من ذلك قال فما رخص لي
   جامع الترمذي2947عبد الله بن عمرواقرأ القرآن في أربعين
   سنن أبي داود1390عبد الله بن عمروفي كم أقرأ القرآن قال في شهر قال إني أقوى من ذلك يردد الكلام أبو موسى وتناقصه حتى قال اقرأه في سبع قال إني أقوى من ذلك قال لا يفقه من قرأه في أقل من ثلاث
   سنن أبي داود1391عبد الله بن عمرواقرأ القرآن في شهر قال إن بي قوة قال اقرأه في ثلاث
   سنن أبي داود1395عبد الله بن عمروفي أربعين يوما ثم قال في شهر ثم قال في عشرين ثم قال في خمس عشرة ثم قال في عشر ثم قال في سبع لم ينزل من سبع
   سنن أبي داود1388عبد الله بن عمرواقرأ القرآن في شهر قال إني أجد قوة قال اقرأ في عشرين قال إني أجد قوة قال اقرأ في خمس عشرة قال إني أجد قوة قال اقرأ في عشر قال إني أجد قوة قال اقرأ في سبع ولا تزيدن على ذلك
   سنن النسائى الصغرى2402عبد الله بن عمرواقرأ القرآن في شهر قلت إني أطيق أكثر من ذلك فلم أزل أطلب إليه حتى قال في خمسة أيام صم ثلاثة أيام من الشهر صم أحب الصيام إلى الله صوم داود كان يصوم يوما ويفطر يوما
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5054 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5054  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی ختم قرآن کی مدت معین کی گئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5054   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5054  
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا تقاضا ہے کہ سات دن سے کم مدت میں قرآن ختم نہیں کرنا چاہیے حالانکہ اسلاف سے کم مدت میں ختم کرنا منقول ہے۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ حکم مخاطب کے ضعف اور عجز کے اعتبار سے ہو۔
یہ بھی احتمال ہے کہ مذکورہ نہی تحریم کے لیے نہ ہو جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے یہ بات حدیث کے تمام طرق اور سیاق و سباق سے معلوم ہوتی ہے۔

اہل ظاہر کا موقف محل نظر ہے کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنا حرام ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکثر علمائے کے نزدیک اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی قوت و نشاط پر موقوف ہے اور یہ حالات واشخاص کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔
واللہ اعلم۔
(فتح الباري: 122/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5054   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1388  
´قرآن کتنے دنوں میں ختم کیا جائے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: قرآن مجید ایک مہینے میں پڑھا کرو، انہوں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بیس دن میں پڑھا کرو، عرض کیا: مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پندرہ دن میں پڑھا کرو، عرض کیا: مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو دس دن میں پڑھا کرو، عرض کیا: مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات دن میں پڑھا کرو، اور اس پر ہرگز زیادتی نہ کرنا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: مسلم (مسلم بن ابراہیم) کی روایت زیادہ کامل ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1388]
1388. اردو حاشیہ: قرآن مجید کو کم از کم ایک ہفتے میں ختم کرنا چاہیے۔ اور یہ افضل ہے تاہم تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنا از حد مکروہ ہے۔ جیسے کہ اگلی روایت میں آرہا ہے۔ اسی مناسبت سے قرآن مجید کے تیس پارے اور سات منازل بنائی گئی ہیں۔ مگر یہ رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی تقسیم نہیں ہے بلکہ بعد کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1388   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1390  
´قرآن کتنے دنوں میں ختم کیا جائے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قرآن کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ایک ماہ میں، کہا: میں اس سے زیادہ کی قدرت رکھتا ہوں (ابوموسیٰ یعنی محمد بن مثنیٰ اس بات کو باربار دہراتے رہے) آپ اسے کم کرتے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے سات دن میں ختم کیا کرو، کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: وہ قرآن نہیں سمجھتا جو اسے تین دن سے کم میں پڑھے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1390]
1390. اردو حاشیہ: قرآن مجید کی تلاوت فہم پر مبنی ہونی چاہیے۔ خواہ تھوڑی ہویا زیادہ عامی اور عجمی لوگوں کےلئے بلافہم تلاوت بھی یقینا باعث اجر وثواب ہے۔ اور مطلوب بھی مگر علم فہم کی اہمیت اور اولویت مسلم ہے۔ اور ذاتی عمل کی اصلاح اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ اس پر مبنی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1390   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1391  
´قرآن کتنے دنوں میں ختم کیا جائے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: قرآن ایک مہینے میں پڑھا کرو، انہوں نے کہا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تین دن میں پڑھا کرو۔‏‏‏‏ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ احمد بن حنبل کہتے تھے: عیسیٰ بن شاذان سمجھدار آدمی ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1391]
1391. اردو حاشیہ: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک رات میں قرآن ختم کرنا مکروہ اور غلط ہے۔ اور کچھ لوگ جو اپنے آئمہ کی شان میں یہ بیان کرتے ہیں۔ کہ وہ رات کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتےتھے۔ رات کو ہزار ر کعت پڑھتے اور قرآن مجید ختم کرتے تھے۔ تو یہ سب باتیں نادان دوستوں کی خود ساختہ ہیں۔ ان میں ان بزرگوں کی طرف غلطی اور مخالفت سنت کی نسبت ہے حالانکہ آئمہ کرام سنت رسولﷺ کے محب اور اسی کے قائل وفائل تھے۔ ایسی بے سروپا باتوں سے ان کا مقام ومرتبہ کسی طور بڑھتا نہیں ہے۔ (دیکھئے۔ میعار الحق۔ ازشیخ الکل سید نزیر حسین محدث دیلوی ؒ) غور کرنے کی بات ہے کہ اوسط درجے کے دنوں کی راتیں بارہ گھنٹے کی ہوتی ہیں۔ اس میں سے عشاء اور فجرکے اوقات جو کم وبیش چار گھنٹے ہوتے ہیں۔ انہیں مستثنیٰ کردیں۔ تو صرف آٹھ گھنٹے یعنی 480 منٹ باقی بچتے ہیں۔ اگر اتنی دیر میں ایک ہزار رکعتیں پڑھی جایئں تو ایک رکعت کے لئے بمشکل بیس پچیس سیکنڈ ملیں گے۔ اخر اتنے وقت میں جس رفتار سے نماز پڑھی جائے گی۔ وہ عبادت ہوگی یا کھیل؟ بلکہ مشین بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے یہ قطعی ہے کہ اس طرح کی باتیں عقیدت مندوں نے گھڑ کر امام کی طرف منسوب کردیں ہیں۔ درآں حالیکہ خود امام نے یہ کام نہیں کیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1391   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1395  
´قرآن کے حصے اور پارے مقرر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس دن میں، پھر فرمایا: ایک ماہ میں، پھر فرمایا: بیس دن میں، پھر فرمایا: پندرہ دن میں، پھر فرمایا: دس دن میں، پھر فرمایا: سات دن میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات سے نیچے نہیں اترے۔ [سنن ابي داود/أبواب قراءة القرآن وتحزيبه وترتيله /حدیث: 1395]
1395. اردو حاشیہ: شیخ البانی ؒ کے نزدیک اس میں [لم ينزل من سبع]
کے الفاظ صحیح نہیں۔ کیونکہ صحیح روایت (1391) میں تین دن میں پڑھ کا حکم ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1395   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2402  
´مہینے میں دس دن کا روزہ اور اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: قرآن ایک مہینہ میں پڑھا کرو، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، اور پھر میں برابر آپ سے مطالبہ کرتا رہا، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: پانچ دن میں پڑھا کرو، اور مہینہ میں تین دن روزہ رکھو، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو میں برابر آپ سے مط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2402]
اردو حاشہ:
پانچ دن میں۔ حدیث: 2392 کے تحت گزر چکا ہے کہ آخر کار آپ نے تین دن میں ختم قرآن کی اجازت دے دی تھی۔ تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2402   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2946  
´باب:۔۔۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن پڑھ ڈالوں؟ آپ نے فرمایا: مہینے میں ایک بار ختم کرو، میں نے کہا میں اس سے بڑھ کر (یعنی کم مدت میں) ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: تو بیس دن میں ختم کرو۔‏‏‏‏ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی یعنی اور بھی کم مدت میں ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: پندرہ دن میں ختم کر لیا کرو۔‏‏‏‏ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: دس دن میں ختم کر لیا کرو۔‏‏‏‏ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2946]
اردو حاشہ:
وضاحت:
ایک دن یا تین دن میں ختم کرنے سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا اور تلاوت کرنا زیادہ پسندیدہ ہے۔

نوٹ:
(سند میں ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط ہیں،
نیز حدیث میں یہ ہے کہ اختمه في خمس یعنی پانچ دن میں قرآن ختم کرو،
عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں پھرکہا کہ رسول اللہﷺ نے اس سے کم دن میں قرآن ختم کرنے کی مجھے اجازت نہیں دی،

امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب کہتے ہیں،
اور کہتے ہیں کہ یہ غرابت بسند ابوبردۃ عن عبداللہ بن عمرو ہے،
واضح رہے کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اُن سے کہا کہ إِقْرَأَ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ قَالَ:
إِنِّي أُطِيْقُ أَكْثَرَ فَمَازَالَ حَتّٰى قَالَ:
فِي ثَلَاث تم ہر مہینے میں قرآن ختم کرو،
تو انہوں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اور برابر یہ کہتے رہے کہ میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں تو رسول اللہﷺ نے کہا:
تین دن میں قرآن ختم کرو (خ/الصیام 54 (1978)،
اور صحیح بخاری (فضائل القرآن: 34، 5054)،
اور صحیح مسلم (صیام 35 /182) وأبوداؤد/ الصلاۃ 325 (1388) میں ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے:
فَاقْرَأهُ فِي كُلِّ سَبْع وَلَا تَزِدْ عَلٰى ذٰلِكَ یعنی ہر سات دن پر قرآن ختم کرو،
اور ا س سے زیادہ نہ کرو،
تو اس سے پتہ چلا کہ فَمَا رَخَّصَ لِي مجھے پانچ دن سے کم کی اجازت نہیں دی کا جملہ شاذ ہے،
اور تین دن میں قرآن ختم کرنے کی اجازت محفوظ اور ثابت ہے،
اور ایسے ہی دوسری روایت میں سات دن ختم کرنے کی اجازت ہے)
اور سبب ضعف ابواسحاق السبیعی ہیں)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2946   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.