صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
88. بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي الْمَسْجِدِ وَغَيْرِهِ:
88. باب: مسجد وغیرہ میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے قینچی کرنا درست ہے۔
(88) Chapter. To clasp one’s hands by interlocking the fingers in the mosque or outside the mosque.
حدیث نمبر: 480
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال عاصم بن علي: حدثنا عاصم بن محمد، سمعت هذا الحديث من ابي فلم احفظه فقومه لي واقد، عن ابيه، قال: سمعت ابي وهو يقول: قال عبد الله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عبد الله بن عمرو كيف بك إذا بقيت في حثالة من الناس بهذا.(مرفوع) وَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَبِي فَلَمْ أَحْفَظْهُ فَقَوَّمَهُ لِي وَاقِدٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي وَهُوَ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو كَيْفَ بِكَ إِذَا بَقِيتَ فِي حُثَالَةٍ مِنَ النَّاسِ بِهَذَا.
اور عاصم بن علی نے کہا، ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کو اپنے باپ محمد بن زید سے سنا۔ لیکن مجھے حدیث یاد نہیں رہی تھی۔ تو میرے بھائی واقد نے اس کو درستی سے اپنے باپ سے روایت کر کے مجھے بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برے لوگوں میں رہ جاؤ گے اس طرح (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں کر کے دکھلائیں)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah:That Allah's Apostle said, "O `Abdullah bin `Amr! What will be your condition when you will be left with the sediments of (worst) people?" (They will be in conflict with each other).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 467


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 480 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:480  
حدیث حاشیہ:

پہلی حدیث میں واقد اپنے والد محمد بن زید سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا۔
اس روایت میں یہ شک تھا کہ ابن عمر ؓ سے بیان کی گئی ہے یا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے؟امام بخاری ؒ نے اس شک کو دور کرنے کے لیے نیز تشبیک کی وجہ بتانے کے لیے دوسری روایت بیان کی کہ عاصم بن محمد نے یہ روایت اپنے والد محمد بن زید سے سنی، لیکن وہ اسے یاد نہ رہی، پھران کی بھائی واقد بن محمد نے ٹھیک ٹھیک طریقے پر محمد بن زید ہی سے روایت بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ نے کہا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے عبداللہ! اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم ایسے لوگوں کے درمیان رہ جاؤ گے جو کوڑے کرکٹ اور بھوسے کی طرح ہوں گے؟ اس روایت سے شک دور ہوگیا کہ اسے بیان کرنے والے عبداللہ بن عمرؓ نہیں بلکہ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ہیں۔
پھر تشبیک کی وجہ بھی معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مضمون سمجھانے کے لیے تمثیل کے طور پر انگلیوں کوانگلیوں میں ڈالا۔
چنانچہ یہ روایت امام حمیدی ؒ کی کتاب الجمع بین الصحیحین میں بایں اضافہ نقل ہوئی ہے کہ ان ردی اور بے کار لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ ان کے عہد وپیمان اور ان کی امانتیں تباہ ہوچکی ہوں گی اور وہ اس طرح ہوگئے ہوں گے، پھر آپ نےاس طرح کی وضاحت کے لیے اپنی انگلیوں کوقینچی بنایا۔
(فتح الباری: 732/1)

بعض روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔
حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی وضو کرتا ہے اور اسے اچھی طرح بناتا ہے،پھر مسجد کی طرف جانے کی نیت لے کر گھر سے نکلتاہے تو وہ اپنی انگلیوں میں انگلیاں نہ ڈالے کیونکہ وہ نماز ہی میں ہے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 386)
ابن ابی شیبہ میں مزید وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے توتشبیک نہ کرے کیونکہ یہ عمل شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔
لیکن اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں۔
امام بخاری ؒ نے یہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ جن روایات میں تشبیک کی ممانعت ہے۔
ان کی صحت محل نظر ہے یا وہ ممانعت حالت نماز پر محمول ہے، نیز اگر کسی صحیح مقصد کے پیش نظر کبھی ایسا کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
جیسا کہ پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک مقصد کی وضاحت کے لیے تشبیک فرمائی۔
امام بخاری ؒ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت سے ثابت کیا کہ ایسا کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔
پھر حدیث ابوہریرہ ؓ سے ثابت فرمایا کہ مسجد میں ایسا عمل کیا جاسکتا ہے۔
اس بنا پر ابن منیر نے کہا ہے کہ ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ منع کی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ فضول اور بے کار طور پر ایسا کرنا منع ہے، اگر کسی حکمت کے پیش نظر ایسا کیا جائے تو جائز ہے، مثلاً:
اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث میں ہے، یا تفہیم کے لیے تمثیل کے طور پر معنویات کو محسوسات میں تبدیل کرنے کے لیے ایسا کیاجائے۔
جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو باہم شیر وشکر رہنے کے متعلق بیان فرمایا، پھر ہاتھوں کو قینچی بناکر بتایا کہ مسلمان باہمی طور پر ایسےملے جلے رہتے ہیں جس طرح عمارت کے پتھر ایک دوسرے کو اٹھائے رہتے ہیں، یاگہرے غور وخوض کی وجہ سے بے ساختہ ایسا ہوجائے۔
جیسا کہ ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے ایسے حالات میں تشبیک کی ممانعت نہیں ہے۔
نوٹ:
۔
حدیث ابوہریرہ ؓ سےمتعلق دیگر مباحث اپنے مقام پر آئیں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 480   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.