8. باب: آیت کی تفسیر ”اللہ کا بڑا بھاری عذاب تو تم کو اس وقت پکڑتا جب تم اپنی زبانوں سے تہمت کو منہ در منہ بیان کر رہے تھے اور اپنی زبانوں سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کی تمہیں کوئی تحقیق نہ تھی اور تم اسے ہلکا سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی“۔
(8) Chapter. “When you were propagating it with your tongues, and uttering with your mouths that whereof you had no knowledge...” (V.24:15)
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی کہ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ مذکورہ بالا آیت «إذ تلقونه بألسنتكم»(جب تم اپنی زبانوں سے اسے منہ در منہ نقل کر رہے تھے) پڑھ رہی تھیں۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4752
حدیث حاشیہ: یعنی وہ بکسر لام اور تخفیف قاف تلقونه پڑھ رہی تھیں جو ولق یلق سے ہے ولق کے معنی جھوٹ بولنا مشہور قراءت تلقونه بہ تشدید قاف اور فتح لام ہے تلقی سے یعنی منہ در منہ لینا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4752
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4752
حدیث حاشیہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسے(ولَقَ يلِقُ) سے پڑھتی تھیں جس کے معنی بولنا ہیں۔ اسے الام کے زیر اور قاف پرشد کے بجائے تخفیف کے ساتھ پڑھتی تھیں جبکہ مشہور قراءت لام کے زبراور قاف مشدد کے ساتھ ہے۔ اس کے معنی منہ در منہ بات نقل کرنا ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قراءت کے مطابق معنی یہ ہیں۔ ”جب تم اپنی زبانوں سے جھوٹ بول رہے تھے۔ “ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود اس کے معنی بیان کیے ہیں کہ "الولق" جھوٹ کے معنی میں ہے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان آیات کو دوسروں سے زیادہ جانتی تھیں کیونکہ یہ آیات خاص ان کی شان میں نازل ہوئی تھیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4144)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4752