2. باب: آیت کی تفسیر ”اور انسانوں میں سے بعض آدمی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی عبادت کنارہ پر (کھڑا ہو کر یعنی شک اور تردد کے ساتھ کرتا ہے۔) پھر اگر اسے کوئی نفع پہنچ گیا تو وہ اس پر جما رہا اور اگر کہیں اس پر کوئی آزمائش آ پڑی تو وہ منہ اٹھا کر واپس چل دیا۔ یعنی مرتد ہو کر دنیا و آخرت دونوں کو کھو بیٹھا۔ ”اللہ تعالیٰ کے ارشاد“ یہی تو ہے انتہائی گمراہی سے یہی مراد ہے۔
(2) Chapter. “And among mankind is he who worships Allah as it were, upon the very edge (i.e., in doubt)...” (V.22:11)
(موقوف) حدثني إبراهيم بن الحارث، حدثنا يحيى بن ابي بكير، حدثنا إسرائيل، عن ابي حصين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: ومن الناس من يعبد الله على حرف سورة الحج آية 11، قال: كان الرجل يقدم المدينة، فإن ولدت امراته غلاما ونتجت خيله، قال:"هذا دين صالح، وإن لم تلد امراته، ولم تنتج خيله، قال: هذا دين سوء".(موقوف) حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ سورة الحج آية 11، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْمَدِينَةَ، فَإِنْ وَلَدَتِ امْرَأَتُهُ غُلَامًا وَنُتِجَتْ خَيْلُهُ، قَالَ:"هَذَا دِينٌ صَالِحٌ، وَإِنْ لَمْ تَلِدِ امْرَأَتُهُ، وَلَمْ تُنْتَجْ خَيْلُهُ، قَالَ: هَذَا دِينُ سُوءٍ".
مجھ سے ابراہیم بن حارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «ومن الناس من يعبد الله على حرف»”اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی عبادت کنارہ پر (کھڑا ہو کر) کرتا ہے۔“ کے متعلق فرمایا کہ بعض لوگ مدینہ آتے (اور اپنے اسلام کا اظہار کرتے) اس کے بعد اگر اس کی بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی بچہ دیتی تو وہ کہتے کہ یہ دین (اسلام) بڑا اچھا دین ہے، لیکن اگر ان کے یہاں لڑکا نہ پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی کوئی بچہ نہ دیتی تو کہتے کہ یہ تو برا دین ہے اس پر مذکور بالا آیت نازل ہوئی۔
Narrated Ibn `Abbas: Regarding the Verse: "And among men is he who worships Allah's as it were on the very edge." (22.11). A man used to come to Medina as if his wife brought a son and his mares produces offspring. He would say, "This religion (Islam) is good," but if his wife did not give birth to a child and his mares produced no offspring, he would say, "This religion is bad."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 266
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4742
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں اس شخص کا حال بیان ہوا ہے جو دین کے بارے میں شک وشبہ اور تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ اسے دین میں استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے، ملتے رہیں تو ٹھیک بصورت دیگر وہ کفر وشرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتےہیں اور ایمان ویقین سے سرشار ہوتے ہیں وہ تنگی اور خوشحالی کودیکھے بغیر دین پر قائم رہتے ہیں۔ نعمتوں سے بہر اورہوتے ہیں تو شکر ادا کرتے ہیں اور اگر تکلیفوں سے دوچار ہو جاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں۔ 2۔ حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بعض روایات کے حوالے سے یہ وصف نومسلم اعرابیوں کا بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 563/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4742