الم تر: الم تعلم كقوله، الم تر كيف، الم تر إلى الذين خرجوا: البوار الهلاك بار يبور، قوما بورا: هالكين.أَلَمْ تَرَ: أَلَمْ تَعْلَمْ كَقَوْلِهِ، أَلَمْ تَرَ كَيْفَ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا: الْبَوَارُ الْهَلَاكُ بَارَ يَبُورُ، قَوْمًا بُورًا: هَالِكِينَ.
«ألم تر» کا معنی «ألم تعلم» یعنی کیا تو نے نہیں جانا۔ «ألم تر كيف»، «ألم تر إلى الذين خرجوا» میں ہے۔ «البوار» ای «الهلاك» ۔ «بورا» کا معنی ہلاکت ہے جو «بار يبور» کا مصدر ہے۔ «قوما بورا» کے معنی ہلاک ہونے والی قوم کے ہیں۔
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عطاء، سمع ابن عباس: الم تر إلى الذين بدلوا نعمت الله كفرا سورة إبراهيم آية 28، قال:" هم كفار اهل مكة".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا سورة إبراهيم آية 28، قَالَ:" هُمْ كُفَّارُ أَهْلِ مَكَّةَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ آیت «ألم تر إلى الذين بدلوا نعمة الله كفرا» میں کفار سے اہل مکہ مراد ہیں۔
Narrated Ata: When Ibn `Abbas heard:-- "Have you not seen those who have changed the favor of Allah into disbelief?" (14.28) he said, "Those were the disbelieving pagans of Mecca."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 222
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4700
حدیث حاشیہ: جنہوں نے اللہ کی نعمت اسلام کی قدر نہ کی اور دولت ایمان سے محروم رہ گئے اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈال دیا۔ بدر میں تباہ ہوئے۔ اگر اسلام قبول کر لیتے تو یہ نوبت نہ آتی سند میں مذکور حضرت علی بن عبد اللہ عبد اللہ بن جعفرؓ کے بیٹے ابن المدینی کے نام سے مشہور ہیں۔ حافظ حدیث ہیں۔ ان کے استاد ابن المہدی نے فرمایا کہ ابن المدینی احادیث نبوی کو سب سے زیادہ جانتے اور پہنچانتے ہیں۔ امام نسائی ؒ نے فرمایا کہ ان کی پیدائش ہی اس خدمت کے لئے ہوئی تھی۔ ذی قعدہ234ھ میں بعمر73 سال انتقال فرمایا۔ رحمه اللہ تعالیٰ۔ مزید تفصیل آئندہ صفحات پر ملاحظہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4700
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4700
حدیث حاشیہ: 1۔ کفار مکہ سے قریشی مشرک سردار ہیں جن کے ہاتھ اس وقت سارے عرب کی بھاگ دوڑ تھی۔ یہ لوگ بیت اللہ کے پاسبان تھے اور اسی پاسبانی کی وجہ سے ان کی عرب بھر میں عزت کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے رسول اللہ ﷺ کو معبوث فرمایا، یہ اللہ تعالیٰ کی ان پر دوسری مہربانی تھی مگر ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا جواب ضد اور دشمنی سے دیا۔ وہ حق کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے پھر اس مخالفت میں بڑھتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ خود بھی تباہ ہوئے اور اپنی قوم کو بھی تباہ کر کے چھوڑا اور مرنے کے بعد خود بھی جہنم جائیں گے اور اپنے پیروکاروں کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبیں گے۔ 2۔ اس حوالے سے ہمیں اپنے متعلق بھی غور وفکر کرنا چاہیے کہ کس قدر اللہ کی نعمتیں استعمال کرنے کے بعد ہم ان کا کتنا شکر ادا کرتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اگرتم شکر کرو گے تو یقیناً میں تمھیں اور زیادہ دوں گا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو بلا شبہ میرا عذاب بھی بہت سخت ہے۔ “(ابراھیم14۔ 7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4700