1. باب: آیت کی تفسیر ”یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ غنیمتیں اللہ کی ملک ہیں پھر رسول کی، پس اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے آپس کی اصلاح کرو“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “They ask you (O Muhammad ) about Al-Anfal (the spoils of war). Say: ’The spoils are for Allah and the Messenger ’. So fear Allah and adjust all matters of difference among you..." (V.8:1)
قال ابن عباس: الانفال: المغانم، قال قتادة: ريحكم الحرب يقال نافلة عطية.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْأَنْفَالُ: الْمَغَانِمُ، قَالَ قَتَادَةُ: رِيحُكُمُ الْحَرْبُ يُقَالُ نَافِلَةٌ عَطِيَّةٌ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «الأنفال» کے معنی غنیمتیں ہیں۔ قتادہ نے کہا کہ لفظ «ريحكم» سے لڑائی مراد ہے (یعنی اگر تم آپس میں نزاع کرو گے تو لڑائی میں تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی)۔ لفظ «نافلة» عطیہ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
(موقوف) حدثني محمد بن عبد الرحيم، حدثنا سعيد بن سليمان، اخبرنا هشيم، اخبرنا ابو بشر، عن سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس رضي الله عنهما سورة الانفال، قال: نزلت في بدر الشوكة الحد". مردفين: فوجا بعد فوج ردفني واردفني جاء بعدي، ذوقوا: باشروا وجربوا وليس هذا من ذوق الفم، فيركمه: يجمعه، شرد: فرق، وإن جنحوا: طلبوا السلم، والسلم، والسلام، واحد، يثخن: يغلب، وقال مجاهد: مكاء: إدخال اصابعهم في افواههم، وتصدية: الصفير، ليثبتوك: ليحبسوك.(موقوف) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سُورَةُ الْأَنْفَالِ، قَالَ: نَزَلَتْ فِي بَدْرٍ الشَّوْكَةُ الْحَدُّ". مُرْدَفِينَ: فَوْجًا بَعْدَ فَوْجٍ رَدِفَنِي وَأَرْدَفَنِي جَاءَ بَعْدِي، ذُوقُوا: بَاشِرُوا وَجَرِّبُوا وَلَيْسَ هَذَا مِنْ ذَوْقِ الْفَمِ، فَيَرْكُمَهُ: يَجْمَعَهُ، شَرِّدْ: فَرِّقْ، وَإِنْ جَنَحُوا: طَلَبُوا السِّلْمُ، وَالسَّلْمُ، وَالسَّلَامُ، وَاحِدٌ، يُثْخِنَ: يَغْلِبَ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مُكَاءً: إِدْخَالُ أَصَابِعِهِمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ، وَتَصْدِيَةً: الصَّفِيرُ، لِيُثْبِتُوكَ: لِيَحْبِسُوكَ.
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشیم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سورۃ الانفال کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتلایا کہ غزوہ بدر میں نازل ہوئی تھی۔ «الشوكة» کا معنی دھار نوک۔ «مردفين» کے معنی فوج در فوج۔ کہتے ہیں «ردفني وأردفني» یعنی میرے بعد آیا۔ «ذلكم فذوقوه ذوقوا» کا معنی یہ ہے کہ یہ عذاب اٹھاؤ اس کا تجربہ کرو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔ «فيركمه» کا معنی اس کا جمع کرے۔ «شرد» کا معنی جدا کر دے (یا سخت سزا دے)۔ «جنحوا» کے معنی طلب کریں۔ «يثخن» کا معنی غالب ہوا اور مجاہد نے کہا «مكاء» کا معنی انگلیاں منہ پر رکھنا۔ «تصدية» سیٹی بجانا۔ «يثبتوك» تاکہ تجھ کو قید کر لیں۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4645
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک حدیث میں سورۃ انفال کی شان نزول ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: غزوہ بدر کے اختتام پر یہ صورت پیدا ہوئی کہ جس فریق نے اموال غنیمت لوٹے تھے وہ ان پر قابض ہوگیا۔ ایک دوسرا فریق جس نے کفار کا تعاقب کیا تھا کہنے لگا ہم بھی ان اموال میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو وہ مڑ کر حملہ کرسکتے تھے اور اس طرح یہ فتح شکست میں تبدیل ہوسکتی تھی۔ ایک تیسرا فریق جو رسول اللہ ﷺ کے گردحفاظت کی خاطر حصار بنائے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا: ہم بھی ان اموال میں برابر کے حصے دار ہیں کیونکہ ہم آپ کی حفاظت نہ کرتے اور اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچتا تو فتح شکست میں بدل سکتی تھی مگر قابضین ایسی باتیں قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے جس سے مجاہدین میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اس تناظر میں یہ سورت نازل ہوئی۔ (مسند أحمد: 324/5) 2۔ اس صورت کے آغاز ہی میں مسلمانوں کی اخلاقی کمزوریوں اور ان کی اصلاح کا طریق کار بیان کیا گیا ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ چند الفاظ کی لغوی تشریح کی ہے۔ سیاق وسباق کے پیش نظر کسی بھی تفسیر کی کتاب سے اس کے معانی دیکھے جاسکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4645