الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
36. بَابُ: {وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} :
36. باب: آیت کی تفسیر ”اور کچھ ان میں ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری دے اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو“۔
(36) Chapter. “And of them there are some who say: ’Our Lord! Give us in this world that which is good and in the Hereafter that which is good...’ ” (V.2:201)
حدیث نمبر: 4522
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث , عن عبد العزيز , عن انس , قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ , عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے «اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» اے پروردگار! ہمارے! ہم کو دنیا میں بھی بہتری دے اور آخرت میں بھی بہتری اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔


Hum se Abu Ma’mar ne bayan kiya, kaha hum se Abdul Waris ne bayan kiya, un se Abdul Aziz ne aur un se Anas bin Malik Radhiallahu Anhu ne bayan kiya ke Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam dua karte the «اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» “Aye hamaare Parwardigaar! Hum ko duniya mein bhi behtari de aur aakhirat mein bhi behtari aur hum ko dozakh ke azaab se bachaaiyo.”

Narrated Anas: The Prophet used to say, "O Allah! Our Lord! Give us in this world that, which is good and in the Hereafter that, which is good and save us from the torment of the Fire." (2.201)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 47


   صحيح البخاري4522أنس بن مالكاللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار
   صحيح البخاري6389أنس بن مالكأكثر دعاء النبي اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار
   صحيح مسلم6841أنس بن مالكربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار
   صحيح مسلم6840أنس بن مالكاللهم آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار
   سنن أبي داود1519أنس بن مالكأكثر دعوة يدعو بها اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار
   بلوغ المرام1353أنس بن مالكربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4522 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4522  
حدیث حاشیہ:
یہ دعا بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
جسے بکثرت پڑھنا دین اور دنیا میں بہت سی برکتوں کا ذریعہ ہے۔
قرآن مجید میں اس سے پہلے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو حج میں خالی دنیاوی مفاد کی دعائیں کرتے اور آخرت کو بالکل بھول جاتے تھے۔
مسلمانوں کو یہ دعا سکھائی گئی کہ وہ دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی بھلائی مانگیں۔
اس آیت کا شان نزول یہی ہے۔
عرفات میں بھی زیادہ تر اس دعا کی فضیلت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4522   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4522  
حدیث حاشیہ:

قرآن مجید میں اس دعائے ربانی سے پہلے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو حج کرتے وقت اپنے دنیاوی مفاد کی دعائیں کرتے اورآخرت کو بالکل نظرانداز کردیتے تھے اور ارشاد باری تعالیٰ:
ان میں سے بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں:
اے ہمارے پروردگار!ہمیں دنیا میں ہی سب کچھ دے دے۔
ایسےشخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
(البقرة: 200/2)
مسلمانوں کو یہ دعا سکھائی گئی کہ وہ دوران حج میں دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی بھلائی مانگیں، اس کے لیے مذکورہ دعا بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں پر مشتمل ہے اسے بکثرت پڑھتے رہنا دین ودنیا کی نعمتوں کا باعث ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکثر اوقات یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6389)

اس دعا سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ بندے کو اپنے رب سے دنیا وآخرت کی بھلائی کا سوال تو کرنا چاہیے لیکن اس بھلائی کا فیصلہ اور انتخاب اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہیے کیونکہ وہی جانتاہے کہ ہمارے لیے حقیقی خیر کس چیز میں ہے؟ لہذا بندے کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی تجویز پیش کرنے کے بجائے معاملہ اللہ تعالیٰ ہی پرچھوڑدے، چنانچہ اس انداز سے دعا کرنے والوں کے متعلق ارشادباری تعالیٰ ہے:
"ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ)
حصہ پائیں گے۔
" اور یہ حصہ اس اُصول کے مطابق ہوگا جو اس نے اپنے بندوں کی نیکیوں کا بدلہ دینے کے لیے مقرر کر رکھا ہے جس کی وضاحت اس نے خود قرآن میں کی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4522   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1353  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت یہ دعا مانگا کرتے تھے «ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» اے ہمارے آقا و مولا! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی سے سر خرو فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ (بخاری ومسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1353»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: "ربنا! آتنا في الدنيا حسنةً"، حديث:6389، ومسلم، الذكر والدعاء، باب فضل الدعاء باللّٰهم! آتنا في الدنيا حسنةً...، حديث:2690.»
تشریح:
1. اس حدیث میں جس دعا کا ذکر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے بکثرت پڑھتے تھے۔
یہ دعا سب دعاؤں سے جامع ہے۔
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ دنیا و آخرت کے جملہ مطالب اس میں آگئے ہیں۔
2.لفظ حسنۃ میں دنیا کے اعتبار سے نیک عمل‘ نیک اولاد‘ وسعت رزق ‘ علم نافع اور صحت و عافیت وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
صرف ایک لفظ حسنۃ کہہ کر دنیا کی تمام بھلائیاں طلب کر لیں اور آخرت کے لیے یہی لفظ بول کر جنت طلب کر لی اور آخرت کی گھبراہٹ سے امن و سلامتی اور حساب و کتاب کی آسانی بھی طلب کر لی‘ نیز آگ کے عذاب‘ یعنی جہنم کے عذاب سے پناہ کی درخواست بھی کر دی۔
گویا اس مختصر مگر جامع دعا میں دنیا و آخرت کی ساری نعمتیں مانگ لیں اور دوزخ کے عذاب سے پناہ و نجات طلب کر لی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1353   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6841  
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔"اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھی خیرعطا فر اور آخرت میں بھی خیر عطا فر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6841]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ کے اس معمول سے یہ معلوم ہوا اور قرآن مجید کا اسلوب بیان بھی اس کا مؤید ہے کہ بندے کو اپنے رب سے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی طلب کرنا چاہیے اور اس بھلائی کا فیصلہ اور انتخاب اپنے رب پر چھوڑ دینا چاہیے،
کیونکہ وہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے حقیقی خیر کس چیز میں ہے،
خاص طور پر دنیا کی چیزوں کا خیر ہونا اس پر موقوف ہے کہ وہ ہمارے لیے آخرت کی کامیابی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں اور کسی چیز کے اس پہلو کا جاننا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے،
البتہ دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور جنت میں چلا جائے،
اس اعتبار سے یہ انتہائی مختصر اور جامع دعا ہے،
جس میں بندے نے دنیا اور آخرت کی ہر مطلوبہ چیز کو مانگ لیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6841   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6389  
6389. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کی اکثر یہ دعا ہوا کرتی تھی۔ اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6389]
حدیث حاشیہ:
بڑی بھاری اہم دعا ہے کہ دنیا اور دین ہر دو کی کامیابی کے لئے دعا کی گئی ہے۔
بلکہ دنیا کو آخرت پر مقدم کیا گیا ہے۔
اس لئے کہ دنیا کے سدھار ہی سے آخرت کا سدھار ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6389   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6389  
6389. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کی اکثر یہ دعا ہوا کرتی تھی۔ اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6389]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دعا بہت جامع کلمات پر مشتمل ہے۔
اس میں دنیا و آخرت کی بھلائی طلب کی گئی ہے۔
(2)
حسنہ سے مراد اگر نعمت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کے ذریعے سے دنیا و آخرت کی نعمتوں اور عذاب آخرت سے حفاظت طلب کی ہے۔
(3)
اس میں دنیا کو آخرت پر مقدم اس لیے کیا ہے کہ امر واقعی یہی ہے کہ دنیا پہلے ہے اور آخرت بعد میں آنے والی ہے، پھر اگر کسی کی دنیا اچھی ہے، اس میں وہ کسی کا محتاج نہیں تو آخرت میں بھی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6389   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.