صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
34. بَابُ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ} :
34. باب: آیت «ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم» کی تفسیر۔
(34) Chapter. “There is no sin on you if you seek the Bounty of your Lord (during pilgrimage by trading)...” (V.2:198)
حدیث نمبر: 4519
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني محمد , قال: اخبرني ابن عيينة , عن عمرو , عن ابن عباس رضي الله عنهما , قال:" كانت عكاظ , ومجنة , وذو المجاز اسواقا في الجاهلية، فتاثموا ان يتجروا في المواسم، فنزلت ليس عليكم جناح ان تبتغوا فضلا من ربكم سورة البقرة آية 198 في مواسم الحج".(موقوف) حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ , قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ عَمْرٍو , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَتْ عُكَاظُ , وَمَجَنَّةُ , وَذُو الْمَجَازِ أَسْوَاقًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَتَأَثَّمُوا أَنْ يَتَّجِرُوا فِي الْمَوَاسِمِ، فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلا مِنْ رَبِّكُمْ سورة البقرة آية 198 فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ".
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عمرو نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے بازار (میلے) تھے، اس لیے (اسلام کے بعد) موسم حج میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے وہاں کاروبار کو برا سمجھا تو آیت نازل ہوئی «ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم‏» کہ تمہیں اس بارے میں کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے پروردگار کے یہاں سے تلاش معاش کرو۔ یعنی موسم حج میں تجارت کے لیے مذکورہ منڈیوں میں جاؤ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: `Ukaz, Mijanna and Dhul-Majaz were markets during the Pre-islamic Period. They (i.e. Muslims) considered it a sin to trade there during the Hajj time (i.e. season), so this Verse was revealed:-- "There is no harm for you if you seek of the Bounty of your Lord during the Hajj season." (2.198)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 44


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4519 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4519  
حدیث حاشیہ:
تجارت کو بطور شغل اختیار کرنا لعنت ہے۔
وہ تجارت مراد ہے جس میں خدا سے غافل ہوجائے اور رزق حلال کو فضل اللہ قرار دیا گیا ہے۔
حتیٰ کہ موسم حج میں بھی اس کے لیے حکم دیا گیا ہے۔
جس سے تجارت کی اہمیت بہت زیادہ ثابت ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4519   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4519  
حدیث حاشیہ:

عکاظ، مجنہ اورذوالمجاز عرب کی مشہور تجارتی منڈیاں تھیں جن میں لوگ تجارت کی غرض سے جمع ہوتے تھےعکاظ ان سب سے بڑا بازار تھا جو نخلہ اور طائف کے درمیان قرن منازل کے پاس تھا۔
ذوالقعدہ کا چاند نظر آتے ہیں شروع ہوجاتا اوربیس دن تک قائم رہتا۔
مجنہ نامی بازار مرالظہران کے پاس لگتا اور ذوالقعدہ کے باقی دس دن تک لگایا جاتا اور ذوالحجہ کا چاند نظر آتے ہی اسے ختم کردیا جاتا۔
ذوالمجاز کی منڈی میدان عرفات سے ایک فرسخ کے فاصلے پر لگتی اورپہلی ذوالحجہ سے شروع ہوکرآٹھ ذوالحجہ تک قائم رہتی۔
اس کے بعد لوگ مناسک حج میں مصروف ہوجاتے۔
(فتح الباري: 750/3)

حدیث میں ہے کہ جب قریش نے رسول اللہ ﷺ کو تبلیغ سے منع کردیا تو آپ موسم حج میں مجنہ اور عکاظ کے بازاروں میں جاتے اور لوگوں کو دعوت ِاسلام دیتے، مکی زندگی کے دس سال اسی طرح مشکلات میں گزارے۔
(مسند أحمد: 322/3)
واضح رہے کہ یہ تینوں بازار دورِاسلام میں بھی قائم تھے یہاں تک کہ خوارج کے وقت 129 ہجری میں سوق عکاظ ختم ہوگیا، اس کے بعد باقی بازار بھی رفتہ رفتہ ختم ہوگئے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دوران حج میں دو وجہ سے تجارت کو بُرا خیال کرتے تھے:
الف۔
چونکہ حج ایک مقدس عبادت کا نام ہے، اس میں تجارت کی ملاوٹ کو وہ اخلاص عمل کے منافی خیال کرتے تھے، اس لیے انھوں نے حج کی عبادت میں تجارت کی ملاوٹ کو مکروہ خیال کیا۔
ب۔
چونکہ یہ بازار دورجاہلیت کی یادگار تھے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جاہلیت کی رسم خیال کرکے اسلام میں اسے گناہ قراردیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اس خیال کی تردید فرمائی کہ ضمنی طور پر دوران حج میں تجارت کرنا کوئی گناہ نہیں۔
اس کےباوجود جس شخص کی نیت اور عمل خالص اللہ کے لیے ہو وہ اس شخص سے افضل ہے جس کی نیت اور عمل میں تجارت وغیرہ کی ملاوٹ ہوگی۔

آیت کریمہ کے آخر میں"فِي مَوَاسِمِ الحَج" کے الفاظ آیت کاحصہ نہیں۔
بلکہ وہ حضرت ابن عباسؓ کے اپنے تشریحی الفاظ ہیں جو انھوں نے آیت کے مفہوم ومدعیٰ کو واضح کرنے کے لیے استعمال کیے ہیں۔
اس قسم کے مدرج الفاظ، تشریحی یا تفسیری الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نزدیک قرآن مجید کی بالمعنی تلاوت جائز تھی۔
(الإتقان: 77/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4519   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.