الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
24. بَابُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} :
24. باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ“۔
(24) Chapter. “O you who believe! Observing As-Saum (the fasting) is prescribed for you as it was prescribed for those before you that you, may become Al-Muttaqun.” (V.2:183)
حدیث نمبر: 4501
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد , حدثنا يحيى , عن عبيد الله , قال: اخبرني نافع , عن ابن عمر رضي الله عنهما , قال: كان عاشوراء يصومه اهل الجاهلية، فلما نزل رمضان , قال:" من شاء صامه ومن شاء لم يصمه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ: كَانَ عَاشُورَاءُ يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ , قَالَ:" مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَصُمْهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، انہیں نافع نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن جاہلیت میں ہم روزہ رکھتے تھے لیکن جب رمضان کے روزے نازل ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

Narrated Ibn `Umar: Fasting was observed on the day of 'Ashura' (i.e. 10th of Muharram) by the people of the Pre-lslamic Period. But when (the order of compulsory fasting) in the month of Ramadan was revealed, the Prophet said, "It is up to one to fast on it (i.e. day of 'Ashura') or not."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 28


   صحيح البخاري4501عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء لم يصمه
   صحيح البخاري1892عبد الله بن عمرصام النبي عاشوراء وأمر بصيامه لما فرض رمضان ترك
   صحيح البخاري2000عبد الله بن عمريوم عاشوراء إن شاء صام
   صحيح مسلم2647عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء تركه
   صحيح مسلم2645عبد الله بن عمرمن أحب أن يصومه فليصمه من أحب أن يتركه فليتركه
   صحيح مسلم2644عبد الله بن عمرمن أحب منكم أن يصومه فليصمه من كره فليدعه
   صحيح مسلم2642عبد الله بن عمرعاشوراء يوم من أيام الله من شاء صامه ومن شاء تركه
   سنن أبي داود2443عبد الله بن عمرمن شاء صامه ومن شاء تركه
   سنن ابن ماجه1737عبد الله بن عمرمن أحب منكم أن يصومه فليصمه من كرهه فليدعه
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4501 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4501  
حدیث حاشیہ:
عاشوراء کا روزہ پہلے فرض تھا۔
رمضان کی فرضیت کے بعد عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہوگئی، البتہ استحباب اب بھی باقی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، آپ نے فرمایا:
قریش دورجاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے خود بھی مکہ میں رہتے ہوئے عاشوراء کا روزہ رکھا اور اپنے اصحاب کو بھی اس روزے کا پابند کیا۔
جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
" (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1893)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4501   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2443  
´یوم عاشورہ (دسویں محرم) کے روزہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب رمضان کے روزوں فرضیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ (یوم عاشوراء) اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے لہٰذا جو روزہ رکھنا چاہے رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2443]
فوائد ومسائل:
دن تو سارے ہی اللہ کے ہیں، مگر جن ایام میں کوئی خاص واقعہ پیش آیا ہو اور دینی و شرعی اعتبار سے ان کی اہمیت ہو، تو انہیں (أَيَّامَ ٱللَّهِ) کہا گیا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2443   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1737  
´یوم عاشوراء کا روزہ۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں دور جاہلیت کے لوگ روزہ رکھتے تھے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے تو رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1737]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ یہ روزہ فر ض نہیں البتہ ثواب کا کا م ضرور ہے
(2)
جاہلیت کے جس کام کی تائید قرآن وحدیث سے ہو جائے وہ ہماری شریعت کا حکم بن جاتا ہے پھر اسے جاہلیت کا کام سمجھ کر نہیں بلکہ اسلام کا حکم سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے اور جس کام سے منع کر دیا جائے وہ با لکل حرام ہوتا ہے جس کام کے بارے میں حکم یا ممانعت کی دلیل نہ ملے اس سے اجتنا ب کرنا چاہیے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے بہت سے کاموں میں یہود و نصاری کی مخالفت کی ہے حتی کے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھ لیا کہ کفار کی مخالفت اسلام کا ایک اصول ہے یہی وجہ ہے کہ جب نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے لئے مشوره ہوا تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ناقوس بجانے اور آگ جلانے کی تجویز رد کر دی كہ یہ غیر مسلمو ں کا طر یقہ ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھیے: (سنن ابن ماجة، الأذان، باب بدء الأذان، حدیث: 707)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1737   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2642  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل جاہلیت عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بھی رمضان کی فرضیت سے پہلے اس کا روزہ رکھتے تھے۔ جب رمضان فرض کر دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عاشورہ ایام اللہ میں سے ایک دن ہے تو جو چاہے اس کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2642]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایام اللہسے مراد وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء اور ان کی امتوں پر احسان و انعام فرمایا اس لیے سورہ ابراہیم میں فرمایا:
﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾ اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات سے تذکیرو نصیحت کیجئے۔
اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2642   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1892  
1892. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی یہ روزہ رکھنے کاحکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ ترک کردیا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ یہ روزہ نہیں رکھتے تھے۔ البتہ اگر ان کے روزوں کے موافق ہوجاتا تو رکھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1892]
حدیث حاشیہ:
یعنی جس دن ان کو روزہ رکھنے کی عادت ہوتی مثلاً پیر یا جمعرات اور اس دن عاشورہ کا دن بھی آپڑتا تو روزہ رکھ لیتے تھے، یوم عاشور محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے، یہ قدیم زمانے سے ایک تاریخی دن چلا آرہا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1892   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.