الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
حدیث نمبر: 4422
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سليمان، قال: حدثني عمرو بن يحيى، عن عباس بن سهل بن سعد، عن ابي حميد، قال: اقبلنا مع النبي صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك حتى إذا اشرفنا على المدينة، قال:" هذه طابة، وهذا احد جبل يحبنا ونحبه".(مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ حَتَّى إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ:" هَذِهِ طَابَةُ، وَهَذَا أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عباس بن سہل بن سعد نے اور ان سے ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ جب آپ مدینہ کے قریب پہنچے تو (مدینہ کی طرف اشارہ کر کے) فرمایا کہ یہ «طابة» ہے اور یہ احد پہاڑ ہے، یہ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔

Narrated Abu Humaid: We returned in the company of the Prophet from the Ghazwa of Tabuk, and when we looked upon Medina, the Prophet said, "This is Taba (i.e. Medina), and this is Uhud, a mountain that loves us and is loved by us."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 706


   صحيح البخاري4422منذر بن سعدهذه طابة وهذا أحد جبل يحبنا ونحبه
   صحيح البخاري1872منذر بن سعدأقبلنا مع النبي من تبوك حتى أشرفنا على المدينة فقال هذه طابة
   صحيح مسلم3371منذر بن سعدهذه طابة وهذا أحد وهو جبل يحبنا ونحبه
   صحيح مسلم5948منذر بن سعدستهب عليكم الليلة ريح شديدة فلا يقم فيها أحد منكم فمن كان له بعير فليشد عقاله فهبت ريح شديدة فقام رجل فحملته الريح حتى ألقته بجبلي طيئ وجاء رسول ابن العلماء صاحب أيلة إلى رسول الله بكتاب وأهدى له بغلة بيضاء فكتب إليه رسول الله وأهدى له بردا ثم أقبلنا حتى
   سنن أبي داود3079منذر بن سعداخرصوا فخرص رسول الله عشرة أوسق فقال للمرأة أحصي ما يخرج منها فأتينا تبوك فأهدى ملك أيلة إلى رسول الله بغلة بيضاء وكساه بردة وكتب له يعني ببحره قال فلما أتينا وادي القرى قال للمرأة كم كان في حديقتك قالت عشرة أوسق خرص رسول الله فقال رسول الله إني متعجل إلى
   صحيح البخاري1481منذر بن سعداما إنها ستهب الليلة ريح شديدة فلا يقومن احد
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4422 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4422  
حدیث حاشیہ:
طابہ، مدینہ طیبہ کا نام ہے اور اُحد پہاڑ کا محبت کرنا مبنی برحقیقت ہے۔
اللہ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز میں قوتِ ادراک اور احساس پیدا کرنے پر قادر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم اس کی تسبیح نہیں سمجھتے۔
(بنی إسرائیل: 44: 17)
چونکہ اس حدیث میں غزوہ تبوک کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کیا ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4422   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1481  
´اللہ تعالیٰ نے بعض واقعات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا`
«. . . قَالَ: أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ، فَعَقَلْنَاهَا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة: 1481]
فقہ الحدیث:
غزوہ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا:
«اما إنها ستهب الليلة ريح شديدة فلا يقومن احد، ومن كان معه بعير فليعقله»
آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔
↰ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آندھی آنے سے قبل ہی اس کی خبر مل گئی تھی، لیکن کوئی بھی اس خبر ملنے کی بنا پر صحابہ کرام کو عالم الغیب ثابت نہیں کرتا، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ملنے پر عالم الغیب ثابت کرنا کیسے درست ہے؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جا بجا اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے، اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا!
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 71، حدیث/صفحہ نمبر: 5   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3079  
´بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا بیان۔`
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تبوک (جہاد کے لیے) چلا، جب آپ وادی قری میں پہنچے تو وہاں ایک عورت کو اس کے باغ میں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا: تخمینہ لگاؤ (کہ باغ میں کتنے پھل ہوں گے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق ۱؎ کا تخمینہ لگایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے کہا: آپ اس سے جو پھل نکلے اس کو ناپ لینا، پھر ہم تبوک آئے تو ایلہ ۲؎ کے بادشاہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفید رنگ کا ایک خچر تحفہ میں بھیجا آپ نے اسے ایک چادر تحفہ میں دی اور اسے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3079]
فوائد ومسائل:

اس خاتون کا یہ باغ غالباً کسی بنجر زمین کو آباد کرکے ہی لگایا گیا تھا۔
جو اس کی ملکیت سمجھا گیا۔
اور یہ ایک قابل قدر کام ہے۔
حاکم ایلہ نے اطاعت قبول کرلی تھی۔
اس لئے آپ نے حاکم ایلہ کو اس کا علاقہ لکھ دیا اور یہ بھی کہ وہ جزیہ ادا کریں گے۔


پھل اترنے سے پہلے اس کا اندازہ لگانا جائز ہے۔
تا کہ اس کے مطابق عشر وغیرہ ادا کیا جا سکے۔


رسول اللہ ﷺ کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔
جو کہ معجزہ ہے۔
دیگر عام اندازہ لگانے والوں کا اندازہ یقینا کم یا زیادہ ہوتا ہے۔


غیر مسلم کا ہدیہ قبول کرلینا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔


سفر میں اپنا مقصد پورا کرلینے کے بعد گھر آنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3079   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5948  
حضرت ابوحمید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو ہم وادی القریٰ میں ایک عورت کے باغیچے پر پہنچے، سورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باغ کے پھل کا اندازہ لگاؤ۔ ہم نے اس کا اندازہ لگایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اندازہ دس وسق لگایا اور آپ نے فرمایا: اے عورت! اس کے پھل کویاد رکھنا، حتیٰ کہ ان شاء اللہ ہم تیرے پاس لوٹ آئیں۔ ہم چل پڑے حتیٰ کہ تبوک پہنچ گئے تو رسول اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5948]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وادي القُري:
یہ ایک پرانا شہر ہے جو مدینہ اور شام کے درمیان واقع ہے۔
(2)
اُخرصوها:
(اس باغ کے)
پھل کا اندازہ لگاؤ،
کتنا ہو گا۔
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر تبوک میں جن چیزوں کو نشاندہی فرمائی تھی،
ان کا ظہور اسی طرح ہوا،
چشمہ تبوک کا واقعہ پچھلی حدیث میں گزر چکا ہے،
اس حدیث میں،
باغ کی کھجوروں کی مقدار کا تذکرہ ہے اور اس بات کا کہ آپ نے ساتھیوں کی ہمدردی اور خیرخواہی کے پیش نظر،
ان پر شفقت کا اظہار کرتے ہوئے،
ان کو ایک احتیاطی تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیا کہ رات کو سخت آندھی چلے گی،
اس لیے اس میں کوئی اکیلا آدمی نہ اٹھے اور اپنے اونٹوں کے زانو بند مضبوط طریقے سے باندھ لینا،
لیکن دو آدمی مجبوری کی بنا پر اس کی پابندی نہ کر سکے،
ایک قضائے حاجت کے لیے اٹھا تو اس کا اس اثنا میں گلہ گھونٹ دیا گیا،
دوسرا آدمی اپنے اونٹ کی تلاش میں نکلا تو آندھی نے اس کو بنوطی کے دو مشہور پہاڑوں میں پھینک دیا،
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپﷺ نے فرمایا:
کیا میں نے تمہیں اکیلے نکلنے سے منع نہیں کیا تھا؟ پھر آپﷺ کی دعا سے گلا گھٹنے والے کو تندرستی حاصل ہو گئی اور دوسرا جب آپ مدینہ واپس آ گئے تو آپ سے آ ملا اور آپ نے انصاری گھرانوں کی فضیلت ان کی اسلام لانے میں سبقت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ان کی محنت و کوشش کی بنیاد پر بیان کی،
جو پہلے مسلمان ہوئے اور اسلامی خدمات میں پیش پیش رہے،
ان کو اول نمبر دیا،
اس بنیاد پر بعد والے مراتب بیان کیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5948   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1872  
1872. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تبوک سے واپس مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا:یہ طابہ، یعنی پاک مقام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1872]
حدیث حاشیہ:
طاب اور طیب دونوں مدینۃ المنورہ کے نام ہیں جو لفظ طیب سے مشتق ہیں جس کے معنی پاکیزگی کے ہیں یعنی یہ شہر ہر لحاظ سے پاکیزہ ہے۔
یہ اسلام کا مرکز ہے، یہاں پیغمبر اسلام ہادی اعظم ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔
حکومت سعودیہ عربیہ أیدها اللہ تعالیٰ نے اس شہر کی صفائی و ستھرائی پاکیزگی آبادکاری میں وہ خدمت انجام دی ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار عالم رہیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1872   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1872  
1872. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تبوک سے واپس مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا:یہ طابہ، یعنی پاک مقام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1872]
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ کے کئی ایک نام ہیں جو اس کے شرف و منزلت پر دلالت کرتے ہیں:
طابہ اور طیبہ، ان کا اشتقاق ایک ہی ہے کیونکہ اسے شرک و بدعت سے پاک قرار دیا گیا اور اس کی فضا اور آب و ہوا کو خوشگوار بنا دیا گیا ہے۔
اس کے چند ایک نام حسب ذیل ہیں:
٭المدينه٭المطيبه٭المسكينه٭الدار٭مجبورة٭منيرة٭مجبة٭محبوبة ٭قاصمه٭الإيمان۔
(فتح الباري: 115/4)
دیگر کتب تاریخ میں ان کے علاوہ بہت سے نام بیان کیے گئے ہیں۔
(2)
بعض علماء نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ مدینہ طیبہ میں رہنے والا اس کی مٹی اور دیواروں سے پاکیزہ خوشبو پاتا ہے۔
ہمارے نزدیک اس کی پاکیزگی یہ ہے کہ مسجد نبوی میں رسول اللہ ﷺ کے گھر اور منبر کے درمیانی خطے کو جنت کی کیاری قرار دیا گیا ہے، اس سے بڑھ کر اور خوشگواری کیا ہو سکتی ہے؟ (عمدةالقاري: 578/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1872   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.