الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
حدیث نمبر: 4302
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عمرو بن سلمة، قال: قال لي: ابو قلابة الا تلقاه فتساله، قال: فلقيته، فسالته، فقال:" كنا بماء ممر الناس، وكان يمر بنا الركبان، فنسالهم: ما للناس، ما للناس، ما هذا الرجل؟ فيقولون: يزعم ان الله ارسله اوحى إليه، او اوحى الله بكذا، فكنت احفظ ذلك الكلام وكانما يقر في صدري، وكانت العرب تلوم بإسلامهم الفتح، فيقولون: اتركوه وقومه، فإنه إن ظهر عليهم فهو نبي صادق، فلما كانت وقعة اهل الفتح بادر كل قوم بإسلامهم، وبدر ابي قومي بإسلامهم، فلما قدم، قال: جئتكم والله من عند النبي صلى الله عليه وسلم حقا، فقال:" صلوا صلاة كذا في حين كذا، وصلوا صلاة كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة، فليؤذن احدكم وليؤمكم اكثركم قرآنا"، فنظروا فلم يكن احد اكثر قرآنا مني لما كنت اتلقى من الركبان، فقدموني بين ايديهم وانا ابن ست او سبع سنين، وكانت علي بردة كنت إذا سجدت تقلصت عني، فقالت امراة من الحي: الا تغطوا عنا است قارئكم؟ فاشتروا، فقطعوا لي قميصا فما فرحت بشيء فرحي بذلك القميص".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: قَالَ لِي: أَبُو قِلَابَةَ أَلَا تَلْقَاهُ فَتَسْأَلَهُ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" كُنَّا بِمَاءٍ مَمَرَّ النَّاسِ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا الرُّكْبَانُ، فَنَسْأَلُهُمْ: مَا لِلنَّاسِ، مَا لِلنَّاسِ، مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُونَ: يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ أَوْحَى إِلَيْهِ، أَوْ أَوْحَى اللَّهُ بِكَذَا، فَكُنْتُ أَحْفَظُ ذَلِكَ الْكَلَامَ وَكَأَنَّمَا يُقَرُّ فِي صَدْرِي، وَكَانَتْ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلَامِهِمُ الْفَتْحَ، فَيَقُولُونَ: اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمْ فَهُوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ، فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلَامِهِمْ، وَبَدَرَ أَبِي قَوْمِي بِإِسْلَامِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا، فَقَالَ:" صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا"، فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّي، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْحَيِّ: أَلَا تُغَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ؟ فَاشْتَرَوْا، فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ فَرَحِي بِذَلِكَ الْقَمِيصِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے ‘ ایوب نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے کہا ‘ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابوقلابہ نے کہا کہ پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا ‘ انہوں نے کہا کہ جاہلیت میں ہمارا قیام ایک چشمہ پر تھا جہاں عام راستہ تھا۔ سوار ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے ‘ لوگوں کا کیا خیال ہے ‘ اس شخص کا کیا معاملہ ہے؟ (یہ اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتا تھا) لوگ بتاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ ان پر وحی نازل کرتا ہے ‘ یا اللہ نے ان پر وحی نازل کی ہے (وہ قرآن کی کوئی آیت سناتے) میں وہ فوراً یاد کر لیتا ‘ ان کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں۔ ادھر سارے عرب والے فتح مکہ پر اپنے اسلام کو موقوف کئے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس نبی کو اور اس کی قوم (قریش) کو نمٹنے دو ‘ اگر وہ ان پر غالب آ گئے تو پھر واقعی وہ سچے نبی ہیں۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قوم نے اسلام لانے میں پہل کی اور میرے والد نے بھی میری قوم کے اسلام میں جلدی کی۔ پھر جب (مدینہ) سے واپس آئے تو کہا کہ میں اللہ کی قسم ایک سچے نبی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ فلاں نماز اس طرح فلاں وقت پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔ لوگوں نے اندازہ کیا کہ کسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہے تو کوئی شخص ان کے قبیلے میں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا انہیں نہیں ملا۔ کیونکہ میں آنے جانے والے سواروں سے سن کر قرآن مجید یاد کر لیا کرتا تھا۔ اس لیے مجھے لوگوں نے امام بنایا۔ حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال کی تھی اور میرے پاس ایک ہی چادر تھی۔ جب میں (اسے لپیٹ کر) سجدہ کرتا تو اوپر ہو جاتی (اور پیچھے کی جگہ) کھل جاتی۔ اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا ‘ تم اپنے قاری کا چوتڑ تو پہلے چھپا دو۔ آخر انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لیے ایک قمیص بنائی، میں جتنا خوش اس قمیص سے ہوا اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا تھا۔

Narrated `Amr bin Salama: We were at a place which was a thoroughfare for the people, and the caravans used to pass by us and we would ask them, "What is wrong with the people? What is wrong with the people? Who is that man?. They would say, "That man claims that Allah has sent him (as an Apostle), that he has been divinely inspired, that Allah has revealed to him such-and-such." I used to memorize that (Divine) Talk, and feel as if it was inculcated in my chest (i.e. mind) And the 'Arabs (other than Quraish) delayed their conversion to Islam till the Conquest (of Mecca). They used to say." "Leave him (i.e. Muhammad) and his people Quraish: if he overpowers them then he is a true Prophet. So, when Mecca was conquered, then every tribe rushed to embrace Islam, and my father hurried to embrace Islam before (the other members of) my tribe. When my father returned (from the Prophet) to his tribe, he said, "By Allah, I have come to you from the Prophet for sure!" The Prophet afterwards said to them, 'Offer such-and-such prayer at such-and-such time, and when the time for the prayer becomes due, then one of you should pronounce the Adhan (for the prayer), and let the one amongst you who knows Qur'an most should, lead the prayer." So they looked for such a person and found none who knew more Qur'an than I because of the Qur'anic material which I used to learn from the caravans. They therefore made me their Imam ((to lead the prayer) and at that time I was a boy of six or seven years, wearing a Burda (i.e. a black square garment) proved to be very short for me (and my body became partly naked). A lady from the tribe said, "Won't you cover the anus of your reciter for us?" So they bought (a piece of cloth) and made a shirt for me. I had never been so happy with anything before as I was with that shirt.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 595


   صحيح البخاري4302عمرو بن سلمةإذا حضرت الصلاة فليؤذن أحدكم ليؤمكم أكثركم قرآنا
   سنن النسائى الصغرى768عمرو بن سلمةليؤمكم أكثركم قراءة للقرآن
   سنن النسائى الصغرى790عمرو بن سلمةليؤمكم أكثركم قرآنا
   صحيح البخاري326عمرو بن سلمةفإذا حضرت الصلاة فليؤذن أحدكم وليؤمكم أكثركم قرآنا
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4302 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4302  
حدیث حاشیہ:
اس سے اہلحدیث اور شافعیہ کا مذہب ثابت ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے کی امامت درست ہے اور جب وہ تمیز دار ہو فرائض اور نوافل سب میں اور اس میں حنفیہ نے خلاف کیا ہے۔
فرائض میں امامت جائز نہیں رکھی (وحیدی)
روایت میں لفظ فکنت احفظ ذلک الکلام و کانما یغری فی صدری۔
پس میں اس کلام قرآ ن کو یاد کر لیتا جیسے کوئی میرے سینے میں اتار دیتا۔
بعض لوگ ترجمہ یہ کر تے ہیں جیسے کوئی میرے سینے میں چپکا دیتا یا کوٹ کر بھر دیتا۔
یہ کئی ترجمے اس بنا پر ہیں کہ بعض نسخوں میں یغری في صدري ہے بعض میں یقر في صدري ہے، عربوں کی قمیص ساتھ ہی تہ بند کا کام بھی دے دیتی ہے۔
اسی لیے روایت میں صرف قمیص بنانے کا ذکر ہے۔
یعنی وہ ٹخنوں تک لمبی ہوتی ہے جس کے بعد تہ بند نہ ہو تب بھی جسم چھپ جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4302   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4302  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نابالغ بچہ فرائض اور نوافل میں امام بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ سمجھ دار ہو جبکہ بعض لوگوں نے بلا وجہ اس موقف سے اختلاف کیا ہے، انھوں نے فرائض میں بچے کی امامت کو جائز نہیں رکھا۔

عربوں کی قمیص تہبند کاکام بھی دیتی ہے، غالباً اسی وجہ سے روایت میں صرف کرتا بنانے کا ذکر ہے وہ ٹخنوں تک لمبا ہوتا اگر تہبند نہ ہو تب بھی جسم چھپ جاتا ہے چونکہ وحی کا زمانہ نہ تھا اگر ایسا کرناناجائز ہوتا تو اسے کسی صورت میں برقرار نہ رکھا جاتا۔
اسے حدیث تقریری حکمی کا نام دیا جا سکتا ہے واللہ اعلم۔

حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
جن حضرات نے نابالغ بچے کی امامت کے خلاف موقف اختیار کیا ہے انھوں نے یہ کہہ کر انصاف سے کام نہیں لیا کہ مذکورہ واقعے میں اہل چشمہ نے اپنے اجتہاد سے عمرو بن سلمہ ؓ کو امام بنایا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے اطلاع نہیں پائی اور نہ آپ نے اسے برقرار ہی رکھا حالانکہ زمانہ وحی میں کسی بھی ناجائز کام کو برقرارنہیں رکھا جا سکتا۔
(فتح الباري: 30/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4302   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 326  
´زرد اور مٹیالا رنگ حیض کے دنوں کے علاوہ ہو (تو کیا حکم ہے؟)`
«. . . عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: " كُنَّا لَا نَعُدُّ الْكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ شَيْئًا " . . . .»
. . . ام عطیہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ` ہم زرد اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ الصُّفْرَةِ وَالْكُدْرَةِ فِي غَيْرِ أَيَّامِ الْحَيْضِ:: 326]
تشریح:
یعنی جب حیض کی مدت ختم ہو جاتی تو مٹیالے یا زرد رنگ کی طرح پانی کے آنے کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔
◈ اس حدیث کے تحت علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
«والحديث يدل على ان الصفرة والكدرة بعدالطهر ليستا من الحيض واما فى وقت الحيض فهما حيض» [نيل الاوطار]
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ طہر کے بعد اگر مٹیالے یا زرد رنگ کا پانی آئے تو وہ حیض نہیں ہے۔ لیکن ایام حیض میں ان کا آنا حیض ہی ہو گا۔

بالکل برعکس:
صاحب تفہیم البخاری (دیوبند) نے محض اپنے مسلک حنفیہ کی پاسداری میں اس حدیث کا ترجمہ بالکل برعکس کیا ہے، جو یہ ہے آپ نے فرمایا کہ ہم زردا اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے (یعنی سب کو حیض سمجھتے تھے۔)
الفاظ حدیث پر ذرا بھی غور کیا جائے تو واضح ہو گا کہ ترجمہ بالکل برعکس ہے، اس پر خود صاحب تفہیم البخاری نے مزید وضاحت کر دی ہے کہ ہم نے ترجمہ میں حنفیہ کے مسلک کی رعایت کی ہے۔ [تفهيم البخاري، ج2، ص: 44]
اس طرح ہر شخص اگر اپنے اپنے مزعومہ مسالک کی رعایت میں حدیث کا ترجمہ کرنے بیٹھے گا تو معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ مگر ہمارے معزز فاضل صاحب تفہیم البخاری کا ذہن محض حمایت مسلک کی وجہ سے ادھر نہیں جا سکا۔ تقلید جامد کا نتیجہ یہی ہونا چاہئیے۔ «انا لله وانااليه راجعون»

◈ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
«اي من الحيض اذا كان فى غيرزمن الحيض امافيه فهومن الحيض تبعا وبه قال سعيد بن المسيب وعطاءواللهث وابوحنيفة ومحمدوالشافعي واحمد» [قسطلاني]
یعنی غیر زمانہ حیض میں مٹیالے یا زرد رنگ والے پانی کو حیض نہیں مانا جائے گا، ہاں زمانہ حیض میں آنے پر اسے حیض ہی کہا جائے گا۔ سعید بن مسیب اور عطاء اور لیث اور ابوحنیفہ اور محمد اور شافعی اور احمد کا یہی فتویٰ ہے۔
خدا جانے صاحب تفہیم البخاری نے ترجمہ میں اپنے مسلک کی رعایت کس بنیاد پر کی ہے؟ «اللهم وفقنا لماتحب وترضيٰ آمين»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 326   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 768  
´تہبند میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میرے قبیلہ کے لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ تمہاری امامت کرائے، تو ان لوگوں نے مجھے بلا بھیجا، اور مجھے رکوع اور سجدہ کرنا سکھایا تو میں ان لوگوں کو نماز پڑھاتا تھا، میرے جسم پر ایک پھٹی چادر ہوتی، تو وہ لوگ میرے والد سے کہتے تھے کہ تم ہم سے اپنے بیٹے کی سرین کیوں نہیں ڈھانپ دیتے؟۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 768]
768 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ سجدہ کرتے وقت بے پردگی ہوتی تھی۔ [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 586]
➋ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ ابھی بچے تھے۔ سات سال کی عمر تھی، لیکن یہ قبیلہ قافلوں کی گزرگاہ پر واقع تھا، اس لیے آنے جانے والے لوگوں سے قرآن مجید کی بہت سی آیات اور سورتیں حفظ کرچکے تھے۔ باقی لوگ اس سعادت سے محروم رہے۔ چونکہ عمرو بن سلمہ بچے تھے، اس لیے انہیں نماز کا طریقہ سکھایا گیا۔
➌ دیگر روایات میں ہے کہ پھر قبیلے کے لوگوں نے مشترکہ رقم سے کپڑا خرید کر مجھے ایک لمبی قمیص بنوا دی جس سے میں بہت خوش ہوا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4302]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 768   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 790  
´نابالغ بچہ کی امامت کا بیان۔`
عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے (جب) میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو، تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو، تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری میں ہی تھا، چنانچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 790]
790 ۔ اردو حاشیہ: معلوم ہوا کہ بچہ صاحب تمیز ہو اور قرآن پڑھا ہوا ہو تو امامت کرا سکتا ہے۔ عام طور پر سات سال کی عمر کو تمیز کے لیے کافی خیال کیا جاتا ہے تبھی تو سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اگر سات سال کا بچہ نماز پڑھ سکتا ہے تو پڑھا کیوں نہیں سکتا؟ احناف نے نابالغ کی امامت اس بنا پر ناجائز قرار دی ہے کہ اس کی نماز نفل ہو گی جب کہ مقتدی بالغ ہوں تو ان کی نماز فرض ہو گی۔ اور نفل کے پیچھے فرض نہیں ہوتے مگر یہ بات بلادلیل ہے۔ بعض احناف تراویح وغیرہ میں بھی جو کہ نفل ہیں نابالغ کی امامت جائز نہیں سمجھتے۔ فإنّا للهِ وإنّا إليه راجِعونَ حدیث رسول کے مقابلے میں اپنی رائے اور قیاس کو دخل دینا نہایت خطرناک ہے۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 790   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:326  
326. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم زرد اور خاکستری رنگ کی رطوبت کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:326]
حدیث حاشیہ:

اس سے قبل ایک حدیث گزر چکی ہے۔
عورتیں کرسف، یعنی روئی کو ڈبیہ میں بند کرکے حضرت عائشہ ؓ کے پاس بغرض تحقیق روانہ کرتیں توحضرت عائشہ فرماتیں کہ اس معاملہ میں جلدی سے کام نہ لیا جائے، جب تک کرسف بالکل سفید برآمد نہ ہو اس وقت تک حالت حیض برقرارہے، یعنی ان کے نزدیک ہررنگ کی رطوبت حیض میں داخل ہے، خواہ زرد رنگ کی ہو یا خاکستری رنگ کی، لیکن حدیث ام عطیہ ؓ میں ہے کہ ہم زرد اور خاکستری رنگ کی رطوبت کو کوئی اہمیت نہ دیتی تھیں۔
امام بخاری ؒ نے ان دونوں احادیث میں تطبیق کی یہ صورت پیدا فرمائی کہ انھوں نے عنوان میں ایک قید کا اضافہ کیا، یعنی ایام حیض کے علاوہ اگرزرد یا خاکستری رنگ کی رطوبت آئے تو اسے کوئی اہمیت نہ دی جائے، جیسا کہ حدیث ام عطیہ میں ہے اور اگرایام حیض میں اس طرح کی رطوبت برآمد ہوتو اسے حیض شمار کیا جائے، جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ حضرت ام عطیہ کی روایت بایں الفاظ بھی مروی ہے کہ طہر کے بعد ہم زرد اورخاکستری رنگ کی رطوبت کو کچھ اہمیت نہ دیتی تھیں۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 307)
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ام عطیہ ؓ بھی طہر سے پہلے ایام حیض کے دوران میں ان رطوبتوں کو حیض ہی شمار کرتی تھیں۔
گویا امام بخاری ؓ نے عنوان میں جو الفاظ بڑھائے ہیں، اس کی بنیاد حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے یا پھر حضرت ام عطیہ ؓ ہی کی روایت میں یہ قید موجود ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 326   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.