مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا ‘ ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ غزوہ موتہ میں میرے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹی تھیں ‘ صرف ایک یمنی تیغہ میرے ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4266
حدیث حاشیہ: یہ حضرت خالد ؓ کی کمال بہادری دلیری اور جرا ت کی دلیل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4266
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4266
حدیث حاشیہ: 1۔ غزوہ موتہ کے معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بہت زیادہ اضافہ کیا کیونکہ مد مقابل رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے زیادہ طاقتور تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرلینا خود کشی کے مترادف ہے، اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دولاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکراجانا عجوبہ روزگار سے کم نہ تھا۔ اس جنگ میں صرف بارہ مسلمان شہید ہوئے اور رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہیں ہوسکا، البتہ مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں جہنم واصل ہوئے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تنہا حضرت خالد بن ولید ؓ کے ہاتھ میں نوتلواریں ٹوٹ گئیں تومقتولین اور مجروحین کی تعداد کتنی رہی ہوگی۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں نے رومیوں کو بھاری نقصان پہنچایا اور بہت سے مشرک قتل کیے اور حضرت خالد بن ولید ؓ نے نہ صرف مسلمانوں کو نقصان سے محفوظ رکھا بلکہ خود جنگ میں شرکت کرکےبہت سے مشرک قتل کیے اور انھیں بھاری نقصان پہنچایا۔ (فتح الباري: 646/7۔ )
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4266