الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
36. باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
(36) Chapter. The Ghazwa of Al- Hudaibiya.
حدیث نمبر: 4182
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف , مرفوع) قال ابن شهاب: واخبرني عروة بن الزبير , ان عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم , قالت:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمتحن من هاجر من المؤمنات بهذه الآية: يايها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك سورة الممتحنة آية 12", وعن عمه , قال: بلغنا حين امر الله رسوله صلى الله عليه وسلم ان يرد إلى المشركين ما انفقوا على من هاجر من ازواجهم , وبلغنا ان ابا بصير فذكره بطوله.(موقوف , مرفوع) قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُ مَنْ هَاجَرَ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ بِهَذِهِ الْآيَةِ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ سورة الممتحنة آية 12", وَعَنْ عَمِّهِ , قَالَ: بَلَغَنَا حِينَ أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرُدَّ إِلَى الْمُشْرِكِينَ مَا أَنْفَقُوا عَلَى مَنْ هَاجَرَ مِنْ أَزْوَاجِهِمْ , وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَصِيرٍ فَذَكَرَهُ بِطُولِهِ.
ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آیت «يا أيها النبي إذا جاءك المؤمنات‏» کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کو پہلے آزماتے تھے اور ان کے چچا سے روایت ہے کہ ہمیں وہ حدیث بھی معلوم ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ جو مسلمان عورتیں ہجرت کر کے چلی آتی ہیں ان کے شوہروں کو وہ سب کچھ واپس کر دیا جائے جو اپنی ان بیویوں کو وہ دے چکے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابوبصیر ‘ پھر انہوں نے تفصیل کے ساتھ حدیث بیان کی۔

Aisha said, "Allah's Apostle used to test all the believing women who migrated to him, with the following Verse:-- "O Prophet! When the believing Women come to you, to give the pledge of allegiance to you." (60.12) `Urwa's uncle said, "We were informed when Allah ordered His Apostle to return to the pagans what they had given to their wives who lately migrated (to Medina) and we were informed that Abu Basir..." relating the whole narration.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 496


   صحيح البخاري4891عائشة بنت عبد اللهيمتحن من هاجر إليه من المؤمنات بهذه الآية بقول الله يأيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك إلى قوله غفور رحيم
   صحيح البخاري4182عائشة بنت عبد اللهيمتحن من هاجر من المؤمنات بهذه الآية يأيها النبي إذا جاءك المؤمنات يبايعنك
   جامع الترمذي3306عائشة بنت عبد اللهما كان رسول الله يمتحن إلا بالآية التي قال الله إذا جاءك المؤمنات يبايعنك
   المعجم الصغير للطبراني582عائشة بنت عبد اللهيمتحن من هاجر إليه من المؤمنات بهذه الآية يأيها النبي إذا جاءك المؤمنات
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4182 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4182  
حدیث حاشیہ:
چونکہ معاہدہ کی شرط میں عورتوں کا کوئی ذکر نہ تھا اس لیے جب عورتوں کا مسئلہ سامنے آیا تو خود قرآن مجید میں حکم نازل ہوا کہ عورتوں کو مشرکین کے حوالے نہ کیا جائے کہ اس سے معاہدہ کی خلاف ورزی لازم نہیں آتی بشرطیکہ تم کو یقین ہو جائے کہ وہ عورتیں محض ایمان و اسلام کی خاطر پورے ایمان کے ساتھ گھر چھوڑ کر آئی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4182   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3306  
´سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا امتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے «إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنۃ: ۱۰)، کہا ہے ۱؎۔ معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان کے ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3306]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو،
اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے،
اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ،
نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنة: 10) اورامتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ کافر ہوں اور اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر،
یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتار ہو کر آئی ہوں،
اور جب تحقیق ہو جائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان عورت کافرمرد کے لیے حرام ہے،
(مردوں کو بھلے واپس کیا جائیگا)
2؎:
اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپﷺ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے،
اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپﷺ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پررکھ کر بیعت لی وه اکثرمرسل روایات ہیں،
نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپﷺ نے اپنے اور ان کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل (موٹا کپڑا وغیرہ) رکھا ہو،
جیساکہ بعض روایات میں آتا ہے (لَیْسَ فِي نُسْخَةِ الألْبَانِي،
وهُوَضَعِیْفٌ لِأَجْلِ أَبِي نَصْرِالأَسدِي فَهُوَمَجْهُوْلٌ)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3306   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4891  
4891. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کے نزول کے بعد ان مومن خواتین کا امتحان لیا کرتے تھے جو ہجرت کر کے آپ ﷺ کے پاس (مدینہ طیبہ) آتی تھیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: اے نبی! جب آپ کے پاس مومن خواتین بیعت کرنے کے لیے آئیں۔۔ غفور رحیم تک۔ حضرت عروہ نے کہا: حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: جو مسلمان عورت ان شرائط کا اقرار کر لیتی تو رسول اللہ ﷺ زبانی طور پر اس سے فرماتے: میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی ہے۔ اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ نے بیعت لیتے وقت کسی عورت کا ہاتھ چھوا ہو۔ آپ ان سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے: تم ان مذکورہ باتوں پر قائم رہنا۔ یونس، معمر اور عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے روایت کرنے میں ان کے بھتیجے کی متابعت کی ہے۔ اسحاق بن راشد نے کہا: وہ زہری سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے عروہ اور عَمرہ دونوں سے روایت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4891]
حدیث حاشیہ:
اب ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں جو ہے آپ نے گھر کے باہر سے اپنا ہاتھ دراز کیا اور ہم نے گھر کے اندر سے، اس سے بھی مصافحہ نہیں نکلتا۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے ایک عورت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اس سے بھی مصافحہ ثابت نہیں ہوتا اور ابوداؤد نے مراسیل میں شعبی سے نکالا کہ آپ نے ایک چادر ہاتھ پر رکھ لی اور فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ان حدیثوں کو دیکھ کر بھی جو مرشد عورتوں کو مرید کرتے وقت ان سے ہاتھ ملائے وہ بدعتی اور مخالف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اسی طرح جو مرشد غیرمحرم عورتوں مریدنیوں کو بے ستر اپنے پاس آنے دے۔
مثلاً سر اور سینہ کھولے ہوئے تو وہ مرشد نہیں ہے بلکہ مضل یعنی گمراہ کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔
(وحیدی)
جو لوگ پیشہ ور پیر مرشد بنے ہوئے ہیں ان کی اکثریت کا یہی حال ہے وہ مرید ہونے والی مستورات احکام شرعیہ پردہ حجاب وغیرہ سے اپنے لئے مستثنیٰ سمجھتے ہیں اور ان سے بغیر حجاب کے خلط ملط رکھنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے ایسے پیروں مرشدوں ہی کے متعلق مولانا روم نے فرمایا ہے۔
کارِ شیطان می کند نامش ولی گر ولی ایں است لعنت بر ولی یعنی کتنے لوگ شیطانی کام کرنے والے ولی کہلاتے ہیں اگر ایسے ہی لوگ ولی ہیں تو ایسے ولیوں پر خدا کی لعنت نازل ہو۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4891   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4891  
4891. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اس آیت کے نزول کے بعد ان مومن خواتین کا امتحان لیا کرتے تھے جو ہجرت کر کے آپ ﷺ کے پاس (مدینہ طیبہ) آتی تھیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: اے نبی! جب آپ کے پاس مومن خواتین بیعت کرنے کے لیے آئیں۔۔ غفور رحیم تک۔ حضرت عروہ نے کہا: حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: جو مسلمان عورت ان شرائط کا اقرار کر لیتی تو رسول اللہ ﷺ زبانی طور پر اس سے فرماتے: میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی ہے۔ اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ نے بیعت لیتے وقت کسی عورت کا ہاتھ چھوا ہو۔ آپ ان سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے: تم ان مذکورہ باتوں پر قائم رہنا۔ یونس، معمر اور عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے روایت کرنے میں ان کے بھتیجے کی متابعت کی ہے۔ اسحاق بن راشد نے کہا: وہ زہری سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے عروہ اور عَمرہ دونوں سے روایت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4891]
حدیث حاشیہ:
جب صلح حدیبیہ ہوئی تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو مسلمان مکے سے مدینے آئے گا۔
مسلمان اسے کافروں کو لوٹانے کے پابند ہوں گے اور اس شرط کے تحت مسلمانوں نے کافروں کے مطالبے پر کچھ مسلمان لوٹا بھی دیے اسی دوران میں جب اُم کلثوم بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہجرت کر کے مدینے آگئیں تو کافروں نے ان کی واپسی کا مطالبہ کر دیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کے اس مطالبےکو درست تسلیم نہ کیا کیونکہ شرط کے الفاظ کی روسے عورتیں اس شرط سےمستثنیٰ تھیں لیکن مسلمانوں کو پابند کیا گیا کہ وہ ہجرت کرنے آنے والی عورتوں سے پوچھ گچھ کریں کہ آیا وہ واقعی مسلمان ہیں؟ محض اسلام کی خاطر وطن چھوڑ کر آئی ہیں؟ کوئی دنیوی یا نفسانی خواہش تو اس ہجرت کا باعث نہیں تھی؟ کہیں خاوندوں سے لڑ کر دیا گھریلو جھگڑوں سے بے زار ہو کر یا محض سیر و سیاحت یا کوئی دوسری غرض تو ہجرت کا باعث نہیں تھی۔
جب عورتیں پوچھ گچھ میں کامیاب ہو جائیں تو انھیں کس صورت میں بھی کافروں کی طرف واپس نہیں کیا جائے گا۔
چنانچہ حدیث میں صراحت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان مہاجر عورتوں سے پوچھ گچھ کرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4891   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.