الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2854
حضرت عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ والے سال میرے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے، ان کے ساتھیوں نے احرام باندھا اور انہوں نے احرام نہ باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ دشمن غیقہ نامی جگہ میں گھات میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے، ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اس دوران میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھا، وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے، ناگہاں میں نے دیکھا تو میری نظر ایک... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2854]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ کی طرف روانگی کے بعد،
اہل مدینہ کو پتہ چلا کہ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھات میں ہے۔
اس لیے حضرت اس لیے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھیجا گیا کہ وہ جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیں کہ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام روحاء سے پہلے جا ملا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک جماعت کے ساتھ دشمن کی خبر گیری کے لیے ساحل سمندر کی طرف بھیج دیا چونکہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ عمرہ کی نیت سے نہیں نکلے تھے اس لیے وہ غیر محرم تھے اور باقی ساتھی محرم تھے وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام قاحہ میں جا ملے۔
وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقہ کی وصولی کے لیے بھیجا پھر وہ واپس آ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھیوں سے جو پیچھے رہ گئے آ ملے اور یہ شکار کا معاملہ پیش آ گیا شکار کے سلسلہ میں ساتھیوں نے ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے لیے شکار کیا بعد میں ساتھیوں کو کھانے کی دعوت دی بعض نے قبول کرلی اوربعض نے رد کردی،
کیونکہ وہ سمجھتے تھے محرم کے لیے شکار کرنا جائز نہیں ہے تو شاید کھانا بھی جائز نہ ہو،
بعد میں یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور ان کے اطمینان وتشفی کے لیے فرمایا اگرکچھ بقایا ہے تو ہمیں بھی پیش کروجیسا کہ آگے آ رہا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تناول فرمایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2854