الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انصار کے مناقب
The Merits of Al-Ansar
46. بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ الْمَدِينَةَ:
46. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا۔
(46) Chapter. The arrival of the Prophet and his companions at Al-Madina.
حدیث نمبر: 3932
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الوارث. ح وحدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الصمد، قال: سمعت ابي يحدث، حدثنا ابو التياح يزيد بن حميد الضبعي، قال: حدثني انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة نزل في علو المدينة في حي، يقال لهم: بنو عمرو بن عوف، قال: فاقام فيهم اربع عشرة ليلة , ثم ارسل إلى ملإ بني النجار، قال: فجاءوا متقلدي سيوفهم، قال: وكاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته وابو بكر ردفه وملا بني النجار حوله حتى القى بفناء ابي ايوب، قال: فكان يصلي حيث ادركته الصلاة ويصلي في مرابض الغنم، قال: ثم إنه امر ببناء المسجد , فارسل إلى ملإ بني النجار فجاءوا، فقال:" يا بني النجار ثامنوني حائطكم هذا"، فقالوا: لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله، قال: فكان فيه ما اقول لكم كانت فيه قبور المشركين , وكانت فيه خرب وكان فيه نخل , فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبور المشركين فنبشت , وبالخرب فسويت , وبالنخل فقطع، قال: فصفوا النخل قبلة المسجد، قال: وجعلوا عضادتيه حجارة، قال: جعلوا ينقلون ذاك الصخر وهم يرتجزون ورسول الله صلى الله عليه وسلم معهم، يقولون: اللهم إنه لا خير إلا خير الآخره فانصر الانصار والمهاجره.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ. ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ الضُّبَعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ نَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ، يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً , ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ، قَالَ: فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي سُيُوفِهِمْ، قَالَ: وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفَهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: فَكَانَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ , فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا، فَقَالَ:" يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي حَائِطَكُمْ هَذَا"، فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ، قَالَ: فَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ كَانَتْ فِيهِ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ , وَكَانَتْ فِيهِ خِرَبٌ وَكَانَ فِيهِ نَخْلٌ , فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ , وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ , وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ، قَالَ: فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ، قَالَ: وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً، قَالَ: جَعَلُوا يَنْقُلُونَ ذَاكَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ، يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْ فَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا (دوسری سند) اور ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے والد عبدالوارث سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابوالتیاح یزید بن حمید ضبعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند جانب قباء کے ایک محلہ میں آپ نے (سب سے پہلے) قیام کیا جسے بنی عمرو بن عوف کا محلہ کہا جاتا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چودہ رات قیام کیا پھر آپ نے قبیلہ بنی النجار کے لوگوں کو بلا بھیجا۔ انہوں نے بیان کیا کہ انصار بنی النجار آپ کی خدمت میں تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے۔ راوی نے بیان کیا گویا اس وقت بھی وہ منظر میری نظروں کے سامنے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسی سواری پر آپ کے پیچھے سوار ہیں اور بنی النجار کے انصار آپ کے چاروں طرف حلقہ بنائے ہوئے مسلح پیدل چلے جا رہے ہیں۔ آخر آپ ابوایوب انصاری کے گھر کے قریب اتر گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ ابھی تک جہاں بھی نماز کا وقت ہو جاتا وہیں آپ نماز پڑھ لیتے تھے۔ بکریوں کے ریوڑ جہاں رات کو باندھے جاتے وہاں بھی نماز پڑھ لی جاتی تھی۔ بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کا حکم فرمایا۔ آپ نے اس کے لیے قبیلہ بنی النجار کے لوگوں کو بلا بھیجا۔ وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنو النجار! اپنے اس باغ کی قیمت طے کر لو۔ انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم ہم اس کی قیمت اللہ کے سوا اور کسی سے نہیں لے سکتے۔ راوی نے بیان کیا کہ اس باغ میں وہ چیزیں تھیں جو میں تم سے بیان کروں گا۔ اس میں مشرکین کی قبریں تھیں، کچھ اس میں کھنڈر تھا اور کھجوروں کے درخت بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مشرکین کی قبریں اکھاڑ دی گئیں، جہاں کھنڈر تھا اسے برابر کیا گیا اور کھجوروں کے درخت کاٹ دیئے گئے۔ راوی نے بیان کیا کہ کھجور کے تنے مسجد کی طرف ایک قطار میں بطور دیوار رکھ دیئے گئے اور دروازہ میں (چوکھٹ کی جگہ) پتھر رکھ دیئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صحابہ جب پتھر لا رہے تھے تو شعر پڑھتے جاتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ خود پتھر لاتے اور شعر پڑھتے۔ صحابہ یہ شعر پڑھتے کہ اے اللہ! آخرت ہی کی خیر، خیر ہے، پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔

Narrated Anas bin Malik: When Allah's Apostle arrived at Medina, he alighted at the upper part of Medina among the people called Bani `Amr bin `Auf and he stayed with them for fourteen nights. Then he sent for the chiefs of Bani An-Najjar, and they came, carrying their swords. As if I am just now looking at Allah's Apostle on his she-camel with Abu Bakr riding behind him (on the same camel) and the chiefs of Bani An- Najjar around him till he dismounted in the courtyard of Abu Aiyub's home. The Prophet used to offer the prayer wherever the prayer was due, and he would pray even in sheepfolds. Then he ordered that the mosque be built. He sent for the chiefs of Banu An-Najjar, and when they came, he said, "O Banu An-Najjar! Suggest to me the price of this garden of yours." They replied "No! By Allah, we do not demand its price except from Allah." In that garden there were the (following) things that I will tell you: Graves of pagans, unleveled land with holes and pits etc., and date-palm trees. Allah's Apostle ordered that the graves of the pagans be dug up and, the unleveled land be leveled and the date-palm trees be cut down. The trunks of the trees were arranged so as to form the wall facing the Qibla. The Stone pillars were built at the sides of its gate. The companions of the Prophet were carrying the stones and reciting some lyrics, and Allah's Apostle . . was with them and they were saying, "O Allah! There is no good Excel the good of the Hereafter, so bestow victory on the Ansar and the Emigrants. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 269


   صحيح البخاري2774أنس بن مالكببناء المسجد وقال يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا قالوا لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله
   صحيح البخاري3932أنس بن مالكببناء المسجد فأرسل إلى ملإ بني النجار فجاءوا فقال يا بني النجار ثامنوني حائطكم هذا فقالوا لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله قال فكان فيه ما أقول لكم كانت فيه قبور المشركين وكانت فيه خرب وكان فيه نخل فأمر رسول الله بقبور المشركين فنبشت
   صحيح البخاري2771أنس بن مالكببناء المسجد فقال يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا قالوا لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله
   صحيح مسلم1173أنس بن مالكيصلي حيث أدركته الصلاة ويصلي في مرابض الغنم أمر بالمسجد قال فأرسل إلى ملإ بني النجار فجاءوا فقال يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا قالوا لا والله لا نطلب ثمنه إلا إلى الله قال أنس فكان فيه ما أقول كان فيه نخل وقبور المشركين وخرب فأمر رسول الل
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3932 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3932  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ترجمہ میں حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے الفاظ ویُصلي في مرابضِ الغنمِ کا ترجمہ چھوڑ دیا ہے، غالباً مرحوم کا یہ سہو ہے۔
اس حدیث میں بھی ہجرت کا ذکر ہے یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3932   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3932  
حدیث حاشیہ:

مدینہ طیبہ سےنجد کی طرف جہت کو عالیہ اور تہامہ کی جہت کو سافلہ کہا جاتا تھا قباء عوالی مدینہ میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا علو مدینہ میں نزول فرمانا سر فرازی اور بلندی کے شگون کے لیے تھا۔

اس باغ کے متعلق پہلے ایک حدیث میں وضاحت تھی کہ وہ کھجوریں خشک کرنے کی جگہ تھی۔
ممکن ہے کہ پہلے باغ ہوں پھر ویران ہو کر کھجوروں کے لیے جگہ بن گئی ہو۔
وہ باغ عمرو کے بیٹوں سہل اور سہیل کے لیے تھا جو یتیم ہو چکے تھے اور وہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کی کفالت میں تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس باغ کی قیمت ادا کریں چنانچہ انھوں نے دس دینار بطور قیمت ادا کیے۔

رسول اللہ ﷺ کے آنے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ ؓ وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے پہلے تو کھجوروں کی چھڑیوں سے مسجد کا ڈھانچہ تیار کیا اور ہجرت کے چار سال بعد اینٹوں اور گارے سے تعمیر کیا۔
(فتح الباري: 308/7)

چونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی ہجرت اور مدینہ تشریف لانے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3932   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1173  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند حصہ میں بنو عمرو بن عوف نامی قبیلہ میں فروکش ہوئے اور یہاں چودہ راتیں قیام فرمایا، پھر آپﷺ نے بنو نجار کے سرداروں کو بلوایا تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، گویا میں رسول اللہ ﷺ کو آپﷺ کی سواری پر دیکھ رہا ہوں۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپﷺ کے پیچھے سوار ہیں اور بنو نجار کے لوگ آپﷺ کے چاروں طرف ہیں، یہاں تک کہ آپﷺ ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1173]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
علو:
عین پرپیش اور زیر دونوں آ سکتے ہیں،
بلندی،
اونچائی،
بنو عمروبن عوف کے لوگ قبا میں رہتے تھے،
جو مدینہ کے بلند حصہ میں واقع ہے۔
ملاء:
سردارواشراف،
اس کا اطلاق جماعت پر بھی ہوتا ہے۔
بنو نجار:
یہ خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کا ننھیال تھا،
اس لیے آپﷺ ان کو اخوال (ماموں)
سمجھتے تھے۔
متقلدي سيوفهم:
اپنی تلواروں کو حمائل کیے ہوئے تاکہ یہود کو پتہ چل سکے کہ وہ آپﷺ کی حفاظت میں ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
فناء:
گھر کے سامنے کا میدان یا کھلی جگہ۔
مرابض:
مربض کی جمع ہے،
باڑہ،
جہاں بکریاں بیٹھ کر رات گزارتی ہیں،
امر:
معروف اور مجہول دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے۔
(2)
ثامنو ني:
میرے ساتھ ثمن (قیمت)
طے کر لو،
آپﷺ نے یہ قطعہ دس دینار میں خریدا تھا،
کیونکہ یتیم بچوں کا تھا اور قیمت ابوبکر رضی اللہ عنہ نےادا کی تھی اور بقول بعض ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے۔
(3)
خَرِبٌ يا خِرَبٌ:
ویرانہ،
کھنڈرات۔
(4)
نُبِشَت:
ان کو اکھاڑ دیا گیا۔
(5)
عَضَادتيه:
عَضَادة دروازوں کے پٹ یا ایک جانب کو کہتے ہیں،
يَرْتَجِزُوْنَ:
وہ رجز پڑھتے تھے۔
رجز یہ شعر کی ایک قسم ہے جس کا ہر فقرہ الگ ہوتا ہے،
یہ کلام موزوں ہوتا ہے یا شعر کے وزن پر ہوتا ہے۔
لیکن کہنے والے کی نیت شعر کی نہیں ہوتی،
اور انسان کے منہ سے کبھی کبھار،
کلام موزوں صادر ہو جائے تو وہ شعر نہیں ہو گا اور نہ اس کو شاعر کہا جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1173   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2771  
2771. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: اے بنو نجار!تم اپنا یہ باغ میرےہاتھ فروخت کردو۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم!نہیں، ہم اس باغ کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے وصول کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2771]
حدیث حاشیہ:
گویا نجار نے اپنی مشترکہ زمین مسجد کیلئے وقف کردی تو باب کا مطلب نکل آیا لیکن ابن سعد نے طبقات میں واقدی سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے یہ زمین دس دینار میں خریدی اور ابو بکر صدیق ؓ نے قیمت ادا کی۔
اس صورت میں بھی باب کا مقصد نکل آئے گا اس طرف سے کہ پہلے بنی نجار نے اس کو وقف کرنا چاہا اور آپ نے اس پر انکار نہ کیا۔
واقدی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے قیمت اسلئے دی کہ دو یتیم بچوں کا بھی اس میں حصہ تھا (وحیدی)
یہ حدیث ابواب الجنائز میں بھی گزر چکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2771   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2774  
2774. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: اے بنو نجار!تم اپنا یہ باغ میرے ہاتھ فروخت کردو۔ انھوں نے عرض کیا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم تو اس کی قیمت صرف اللہ سے لیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2774]
حدیث حاشیہ:
لجعل البخاري أراد الرد علی من خص جواز الوقف بالمسجد وکأنه قال قد نفذ وقف الأرض المذکورة قبل أن تکون مسجدا فدل علی أن صحة الوقف لا تختص بالمسجد ووجه أخذہ من حدیث الباب أن الذین قالوا لا نطلب ثمنها إلا إلی اللہ کأنھم تصدقو ا بالأرض المذکورة لحتم انعقاد الوقف قبل البناء فیؤخذ منه أن من وقف أرضا علیٰ أن یبنیھا مسجدا ینعقد الوقف قبل البناء (فتح)
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ مسجد کے نام پر تعمیر سے پہلے ہی کسی زمین کا وقف کرنا درست ہے کچھ لوگ اس کو جائز نہیں کہتے، ان کی تردید کرنا امام بخاری ؒ کا مقصد ہے بنو نجار نے پہلے زمین کو وقف کردیا تھا بعد میں مسجد نبوی وہاں تعمیر کی گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2774   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2771  
2771. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: اے بنو نجار!تم اپنا یہ باغ میرےہاتھ فروخت کردو۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم!نہیں، ہم اس باغ کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے وصول کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2771]
حدیث حاشیہ:
مشاع اس مشترکہ جائیداد کو کہتے ہیں جس میں شرکاء کے حصے متعین نہ کیے گئے ہوں۔
بعض حضرات کا موقف ہے کہ مشترک مال وقف نہیں کیا جا سکتا، خواہ وقف کرنے والا فرد واحد ہو یا جماعت۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کو محل نظر قرار دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ مشترک مال کو جماعت وقف کر سکتی ہے جیسا کہ بنو نجار نے اپنا باغ اللہ کے لیے وقف کر دیا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے برقرار رکھا، اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ اس باغ کی قیمت دس دینار حضرت ابوبکر ؓ نے ادا کر دی تھی، تاہم قیمت کی ادائیگی سے پہلے جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی ہم وقف کرتے ہیں تو آپ نے اس کا انکار نہیں کیا۔
اگر وقف مشاع جائز نہ ہوتا تو آپ اسے قبول نہ فرماتے بلکہ مسترد کر دیتے۔
(فتح الباري: 488/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2771   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2774  
2774. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مسجد بنانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: اے بنو نجار!تم اپنا یہ باغ میرے ہاتھ فروخت کردو۔ انھوں نے عرض کیا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم تو اس کی قیمت صرف اللہ سے لیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2774]
حدیث حاشیہ:
(1)
مساجد کی دو قسمیں ہیں:
ایک یہ کہ گھر یا کھیت یا فیکٹری کے کسی حصے میں مسجد بنا لی جائے اور وہاں نماز پڑھنا شروع کر دی جائے۔
اس قسم کی مسجد کے لیے جملہ لوازمات، یعنی اذان، جماعت اور جمعہ کا ہونا ضروری نہیں اور نہ اس قسم کی مسجد کا وقف ہونا ہی ضروری ہے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ مسجد کو اس کے آداب و لوازمات کے ساتھ تعمیر کیا جائے۔
اس میں نماز، جماعت اور جمعہ کا اہتمام ہو اور بوقت نماز ہر کلمہ گو مسلمان کو اس میں نماز ادا کرنے کی آزادی ہو۔
اس قسم کی مسجد کا وقف ہونا ضروری ہے تاکہ کوئی بھی نمازیوں کے لیے نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
اگر مسجد وقف نہیں ہو گی تو مالک اپنے تصرف و اختیار کے پیش نظر اس سے روک سکتا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مسجد تعمیر ہونے کے بعد ہی اس کا وقف کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے زمین بھی وقف ہو سکتی ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
شارح بخاری ابن منیر کہتے ہیں:
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد ان حضرات کی تردید کرنا ہے جو وقف کو مسجد بننے کے ساتھ لازم کرتے ہیں۔
مسجد تعمیر ہونے سے پہلے اس کے لیے حاصل کردہ زمین کو بھی وقف کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 494/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2774   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.