حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نماز کے ارکان میں تمامیت کا ضرور خیال رکھا جائے۔
اگر نماز کی حفاظت و تمامیت کے لیے پیشانی نیچے کپڑا اور پاؤں کے لیے جوتوں یا موزوں کی ضرورت ہو تو انھیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سجدے کی صحت کا مدار اعضاء پر ہے، یعنی پیشانی اور قدم اگر زمین پر ٹھہرے ہوئے ہوں تو سجدہ صحیح ہوگا، اس کے برعکس اگر پیشانی زمین پرلگی ہوئی نہیں یا قدم زمین سے اٹھے ہوئے ہیں تو سجدہ نہیں ہو گا۔
گویا امام بخاری ؒ نے اس باب میں پچھلے ابواب کی وجہ بیان کی ہے۔
2۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس باب کے ذکر کو یہاں بے محل قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ باب بظاہر ناسخین اور ناقلین کی غلطی سے درج ہو گیا ہے، کیونکہ مستملی کے نسخے میں اس جگہ یہ باب نہیں ہے اور مستملی ہی تمام ناقلین میں زیادہ حفظ واتقان والے ہیں۔
اس کا اصل مقام صفة الصلاة ہے۔
وایسے أبواب ستر العورة میں اس باب کو لانے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اگر نمازی کسی شرط کو ترک کردے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہو گی۔
جیسا کہ کسی رکن کو ترک کرنے سے نماز صحیح نہیں ہوتی۔
(فتح الباري: 642/1) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ فربری کی روایت کے مطابق صحیح بخاری کے کچھ اوراق کتاب سے علیحدہ تھے۔
بعض ناسخین سے غلطی ہوئی کہ انھوں نے ان اوراق کو ایسی جگہوں سے ملحق کردیا جہاں مصنف نے الحاق نہیں کیا تھا۔
پھر فرماتے ہیں کہ یہ باب اور اس سے ملحق باب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ہے کہ ناسخین کی غلطی سے دوسری جگہ لگ گئے ہیں، اس لیے کہ یہ مسائل دراصل أبواب صفة الصلاة سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہمارے نزدیک ناسخین کی غلطی سے اوراق کا ردو بدل نہیں ہوا بلکہ امام بخاری ؒ نے قصداً ایسا کیا ہے۔
جیسا کہ ہم نے اس کی توجیہ بیان کی ہے۔
3۔
امام بخاری سے صحیح بخاری کو نوے ہزار علماء نے سنا ہے، لیکن اسے مرتب کرنے والے صرف چار اہل علم ہیں۔
شیخ ابراہیم بن معقل نسفی
شیخ حماد بن شاکر نسوی
محمد بن یوسف فربری
شیخ ابو طلحہ منصور بن طلحہ بزدوی، ہمارے سامنے فربری والا نسخہ ہے۔
اس نسخے کی ان سے بلا واسطہ روایت کرنے والے مستملی اور کشمیہنی ہیں اور بالواسطہ روایت کرنے والے اصیلی اور مروزی ہیں۔
ان سب سے مستملی کے نسخے کو ان کے احفظ ہونے کی بنا پر ترجیح ہے۔
جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے۔
(فتح الباري: 642/1)