(موقوف) حدثنا علي بن الجعد، اخبرنا شعبة، عن ايوب، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن علي رضي الله عنه، قال:" اقضوا كما كنتم تقضون فإني اكره الاختلاف حتى يكون للناس جماعة او اموت كما مات اصحابي". فكان ابن سيرين يرى ان عامة ما يروى عن علي الكذب.(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" اقْضُوا كَمَا كُنْتُمْ تَقْضُونَ فَإِنِّي أَكْرَهُ الِاخْتِلَافَ حَتَّى يَكُونَ لِلنَّاسِ جَمَاعَةٌ أَوْ أَمُوتَ كَمَا مَاتَ أَصْحَابِي". فَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ يَرَى أَنَّ عَامَّةَ مَا يُرْوَى عَنْ عَلِيٍّ الْكَذِبُ.
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں ابن سیرین نے، انہیں عبیدہ نے کہ علی رضی اللہ عنہ نے عراق والوں سے کہا کہ جس طرح تم پہلے فیصلہ کیا کرتے تھے اب بھی کیا کرو کیونکہ میں اختلاف کو برا جانتا ہوں۔ اس وقت تک کہ سب لوگ جمع ہو جائیں یا میں بھی اپنے ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی طرح دنیا سے چلا جاؤں، ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ عام لوگ (روافض) جو علی رضی اللہ عنہ سے روایات (شیخین کی مخالفت میں) بیان کرتے ہیں وہ قطعاً جھوٹی ہیں۔
Narrated Ubaida: Ali said (to the people of 'Iraq), "Judge as you used to judge, for I hate differences (and I do my best ) till the people unite as one group, or I die as my companions have died."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 56
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3707
حدیث حاشیہ: لفظ رافضی رفض سے مشتق ہے، محققین کہتے ہیں کہ ان شیعوں کانام رافضی اس لیے ہوا کہ لأنھم رفضوا زید بن علي بن الحسین بن علي بن أبي طالب بعدم تبریئه من أبي بکر وعمر۔ واقعہ یہ ہے ہواتھاکہ حضرت زید بن علی بن حسین ؓ کو فہ تشریف لائے اور لوگوں کو تبلیغ کی، بہت سے لوگوں نے ان سے بیعت کی مگر ایک جماعت نے کہا کہ جب تک آپ ابوبکر وعمر کو برانہ کہیں گے ہم آپ سے بیعت نہ کریں گے، حضرت زید نے ان کی اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور وہ امر حق پر قائم رہے۔ اس وقت اس جماعت نے یہ نعرہ بلند کیا نحن نرفضك ہم تم کو چھوڑتے ہیں۔ اس وقت سے یہ گروہ رافضی کے نام سے موسوم ہوا۔ حضرت پیر جیلا نی ؒ نے اس گروہ کی سخت مذمت کی ہے اس گروہ کے مقابلہ پر خارجی ہیں جنہوں نے حضرت علی ؓ پر خروج کیا اور منبر پر ان کی برائی شروع کی، ہردوفریق گمراہ ہیں، اعتدال اہل سنت کا ہے جو سب صحابہ ؓ کی عزت کرتے ہیں اور کسی کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے ان کی لغزشوں کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ روایت میں مذکور بزرگ عبیدہ ؒ عراق کے قاضی تھے، حضرت عمر ؓ کا قول یہ تھا کہ ام ولد کی بیع درست نہیں ہے، حضرت علی ؓ کا خیال تھا کہ ام ولد کی بیع درست ہے، عبیدہ نے یہ عرض کیا کہ ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کے زمانے میں توہم ام ولد کی بیع کی ناجوازی کا فتویٰ دیتے رہے ہیں۔ اب آپ کا کیا حکم ہے؟ اس وقت حضرت علی ؓ نے یہ فرمایا کہ اب بھی وہی فیصلہ کرو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3707
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3707
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت علی ؓ ام ولد کی خریدوفروخت سے منع کرتے تھے جب انھوں نے دیکھا کہ لوگ اس کی خریدوفروخت کرتے ہیں توآپ نے اسے قول سے رجوع کرلیا کہ میری رائے سے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوتاہے جسے میں پسند نہیں کرتااور شیخین کے فیصلوں پر عمل کرنے سے اجتماعیت اور اتفاق قائم رہتا ہے،لہذا اپنی رائے کو چھوڑتا ہوں تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں۔ 2۔ حضرت ابن سیرین ؒ کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ حضرات حضرت علی ؓ کے جو اقوال شیخین کی مخالفت میں بیان کرتے ہیں،ان کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ وہ سب جھوٹے اور خود ساختہ ہیں۔ (فتح الباري: 94/7) 3۔ اس حدیث میں حضرت علی ؓ کی فضیلت ہے کہ انھوں نے اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی رائے کو ترکر کردیا۔ 4۔ حضرت علی کو ابن ملجم ملعون نے رمضان 40ھ مطابق جنوری 661ء میں شہید کردیا۔ إناللہ وإناإلیه راجعون۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات میں سے ہے کہ خلافت کی ترتیب اس طرح واقع ہوئی کہ جو شخصیت نسب کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے زیادہ قریب تھی اسے بعد میں خلافت ملی جوشخصیت ابعد تھی اسے خلافت پہلے ملی۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3707