وقال ابو حازم: عن سهل بن سعد،" صلوا مع النبي صلى الله عليه وسلم عاقدي ازرهم على عواتقهم"وَقَالَ أَبُو حَازِمٍ: عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ،" صَلَّوْا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاقِدِي أُزْرِهِمْ عَلَى عَوَاتِقِهِمْ"
اور ابوحازم سلمہ بن دینار نے سہل بن سعد سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی تہبند کندھوں پر باندھ کر نماز پڑھی۔
(موقوف) حدثنا احمد بن يونس، قال: حدثنا عاصم بن محمد، قال: حدثني واقد بن محمد، عن محمد بن المنكدر، قال:" صلى جابر في إزار قد عقده من قبل قفاه وثيابه موضوعة على المشجب، قال له قائل: تصلي في إزار واحد، فقال: إنما صنعت ذلك ليراني احمق مثلك، واينا كان له ثوبان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم".(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَاقِدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ:" صَلَّى جَابِرٌ فِي إِزَارٍ قَدْ عَقَدَهُ مِنْ قِبَلِ قَفَاهُ وَثِيَابُهُ مَوْضُوعَةٌ عَلَى الْمِشْجَبِ، قَالَ لَهُ قَائِلٌ: تُصَلِّي فِي إِزَارٍ وَاحِدٍ، فَقَالَ: إِنَّمَا صَنَعْتُ ذَلِكَ لِيَرَانِي أَحْمَقُ مِثْلُكَ، وَأَيُّنَا كَانَ لَهُ ثَوْبَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے واقد بن محمد نے محمد بن منکدر کے حوالہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے تہبند باندھ کر نماز پڑھی۔ جسے انہوں نے سر تک باندھ رکھا تھا اور آپ کے کپڑے کھونٹی پر ٹنگے ہوئے تھے۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ تجھ جیسا کوئی احمق مجھے دیکھے۔ بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو کپڑے بھی کس کے پاس تھے؟
Narrated Muhammad bin Al-Munkadir: Once Jabir prayed with his Izar tied to his back while his clothes were Lying beside him on a wooden peg. Somebody asked him, "Do you offer your prayer in a single Izar?" He replied, "I did so to show it to a fool like you. Had anyone of us two garments in the lifetime of the Prophet?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 348
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:352
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ صحت نماز کا مدار کپڑوں کی گنتی پرنہیں بلکہ سترہ عورۃ پر ہے، خواہ وہ کسی طریقے سے حاصل ہو۔ پیش کردہ روایت میں حضرت جابر ؓ نے ایک ہی چادر میں نماز پڑھی اورسترعورۃ کے لیے انھوں نے چادر کے دونوں کناروں کو گردن پر باندھ لیا۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اگرکسی کے پاس ایک سے زائد کپڑے ہوں اس کے باوجود وہ صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھتاہے تو ایساکرناجائز ہے، اگرچہ بہتر ہے کہ وہ پورا لباس پہن کر نماز پڑھے، چنانچہ پہلی روایت میں حضرت جابر ؓ کا عمل بیان ہواہے۔ دوسری سے پتہ چلا کہ حضرت جابر ؓ کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا اس لیے تھا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھاتھا تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: کوئی آدمی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے اگرچہ وہ زمین وآسمان جتنا وسیع ہو۔ محدث ابن بطال ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ کی طرف اس طرح کا امتناعی حکم منسوب کیاہے۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہوا کہ ایک کپڑے میں نماز ادا کی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ ساتر ہو، اگرچہ دوسرے کپڑے اس کے پاس موجود ہوں۔ (فتح الباري: 607/1) 2۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت جابرؓ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق روایت کرنے والے حضرت عبادہ بن ولید تھے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت (360) سے معلوم ہوتاہے کہ سعید بن حارث نے اس کے متعلق سوال کیاتھا، جبکہ صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت (370) میں ہے، ابن منکدر کہتے ہیں: ہم نے کہا: اے ابوعبداللہ! یعنی ہم نے اس کے متعلق سوا ل کیا۔ ممکن ہے کہ متعدد دفعہ مختلف لوگوں نے اس کے متعلق سوال کیے ہوں۔ ابن منکدر کے جواب میں حضرت جابرؓ نے فرمایا: میں نے چاہا کہ آپ جیسے جاہل مجھے اس طرح نماز پڑھتا دیکھ لیں۔ حضرت جابر ؓ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاتحقیق اکابر علماء پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی نظر میں ایسا کرنا حماقت اور جہالت ہے۔ حضرت جابر ؓ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے قصداً ایساکیا ہے، اس میں تمہارے اس اعتراض کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ تمھیں سوچناچاہیے تھاکہ واقف شریعت صحابی عمل کررہا ہے اور اس عمل میں عقل وقیاس کو بھی کوئی دخل نہیں، اس لیے یہ عمل خود جواز کی دلیل ہے، لیکن تم اس عمل سے مسئلہ مستنبط کرنے کی بجائے اعتراض کرنے لگے جو حماقت اور جہالت کی علامت ہے۔ (فتح الباری: 606/1) 3۔ (مشخب) کے معنی ہمارے یہاں کی متد اول تپائی نہیں، بلکہ اس سے مراد تین لکڑیاں کھڑی کرکے ان کے اوپر والے سرے جوڑ دیے جائیں اور نیچے کے سرے پھیلا دیے جائیں، جیسے سپاہی پریڈ کے میدان میں تین بندوقیں جوڑ کر کھڑی کردیتے ہیں، اس وقت لوگ لکڑی کے اس اسٹینڈ پر غسل وغیرہ کے وقت اپنے کپڑے رکھ دیتے تھے، نیز پانی ٹھنڈا کرنے کے لیے اس پر مشکیزے بھی لٹکایا کرتے تھے، چرواہے بھی اسے استعمال کرتے تھے، یعنی اس پراپنا ڈول اور مشکیزہ لٹکا دیتے تھے۔ (فتح الباری: 606/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 352