(موقوف) حدثنا عبد الله بن ابي شيبة، حدثنا ابو اسامة، حدثنا هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت:" توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وما في بيتي من شيء ياكله ذو كبد إلا شطر شعير في رف لي، فاكلت منه حتى طال علي فكلته ففني".(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا فِي بَيْتِي مِنْ شَيْءٍ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَطْرُ شَعِيرٍ فِي رَفٍّ لِي، فَأَكَلْتُ مِنْهُ حَتَّى طَالَ عَلَيَّ فَكِلْتُهُ فَفَنِيَ".
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے ‘ کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا ‘ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میرے گھر میں آدھے وسق جو کے سوا جو ایک طاق میں رکھے ہوئے تھے اور کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو کسی جگر والے (جاندار) کی خوراک بن سکتی۔ میں اسی میں سے کھاتی رہی اور بہت دن گزر گئے۔ پھر میں نے اس میں سے ناپ کر نکالنا شروع کیا تو وہ جلدی ختم ہو گئے۔
Narrated Aisha: Allah's Apostle died, and there was nothing in my house that a living being could eat, except some barley Lying on a shelf. So, I ate of it for a long period and measured it, and (after a short period) it was consumed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 329
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3097
حدیث حاشیہ: اللہ نے اس جو میں برکت دی تھی۔ جب حضرت عائشہ ؓنے اس کوناپا، تو گویاتوکل میں فرق آیا۔ برکت جاتی رہی۔ یہ جو دوسری حدیث میں ہے کہ غلہ ناپواس میں تمہارے لئے برکت ہوگی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ خریدتے وقت یا لیتے وقت یا جتنا اس میں سے نکالو وہ ماپ لو‘ سب کو مت ناپو‘ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو یہ جو ترکہ میں نہیں ملے تھے‘ بلکہ ان کا خرچہ بیت المال پر تھا۔ اگر یہ خرچہ بیت المال کے ذمہ نہ ہوتا تو آپ ﷺ کی وفات کے بعد وہ جو ان سے لے لئے جاتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3097
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3097
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3097کا باب: «بَابُ نَفَقَةِ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِهِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے نفقہ کے بارے میں اشارہ فرمایا اور حدیث اس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے پیش فرمائی کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آدھے وسق جو سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ جو جاندار کی خوراک ہو۔ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہو گی کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ جو ترکہ میں نہیں ملے تھے بلکہ اس کا خرچہ بیت المال پر تھا، اگر یہ ترکہ کے جو ہوتے تو ان سے لے لئے جاتے۔ ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «وجه مطابقة الترجمة لحديث عائشة، قولها، فأكلت منه حتى طال على فكلته ففني، و لم تذكر أنها أخذته فى نصيبها.»[المتواري، ص: 185] ترجمہ الباب اور حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں مطابقت یوں ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اس (جو) میں سے کھاتی رہی، جب میں نے تولنا شروع کیا تو وہ ختم ہو گئے۔ لہذا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ انہیں ترکہ میں ملا تھا (بلکہ یہ بیت المال سے انہیں دیا گیا تھا)۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مطابقة الحديث للترجمة فى قولها: فأكلت منه . . . إلخ فأنها لم تذكر أنها أخذته فى نصيبها بالميراث إذ لو لم تستحق النفقة لأخذ الشعير منها بيت المال.»[ارشاد الساري، ج 5، ص: 466 - عمدة القاري، 1570، ص: 42] یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت یوں ہو گی کہ آپ رضی اللہ عنہا کا فرمان کہ ”میں اس میں سے کھاتی رہی“، پس انہوں نے یہ نہیں ذکر فرمایا کہ یہ (جو) میراث میں سے ان کو ملا تھا، بلکہ ان کو یہ نفقہ بیت المال سے جاری ہوا تھا۔ اسی مطابقت کی طرف ابویحیی زکریا الشافعی رحمہ اللہ بھی مائل ہیں۔ [منحة الباري، ج 6، ص: 211-212] علامہ محمد التاودی بن سودۃ فرماتے ہیں: «”فأكلت منه“ أى و لم تورث و هو وجه الترجمة.»[حاشية التاودي بن سودة، ج 3، ص: 269] ان شارحین کی گفتگو سے واضح ہوا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا ”جو“ بیت المال سے انہیں میسر تھا نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے انہیں ملا، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3097
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کو مذکورہ عنوان کے تحت اس لیے لایا گیا ہے اگر حضرت عائشہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نان و نفقہ کی حق دار نہ ہوتیں تو وہ جو بھی آپ سے لے کر بیت المال میں جمع کردیے جاتے۔ 2۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں ناپنا ان کے ختم ہونے کا سبب بنا۔ حالانکہ حدیث میں ہے۔ ”تم غلے کا ناپ تول کرو کیونکہ اس میں برکت ہے۔ “(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2128) اس کا مطلب یہ ہے کہ خریدو فروخت کے وقت ناپ تول کی جا سکتی ہے البتہ کھانے پینے کے وقت مکروہ ہے گویا ایسا کرنے سے توکل میں فرق آجاتا ہے۔ (عمدة القاري: 433/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3097