(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا يزيد بن زريع، عن خالد، عن ابي عثمان النهدي، عن مجاشع بن مسعود، قال: جاء مجاشع باخيه مجالد بن مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هذا مجالد يبايعك على الهجرة، فقال: لا هجرة بعد فتح مكة ولكن ابايعه على الإسلام".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: جَاءَ مُجَاشِعٌ بِأَخِيهِ مُجَالِدِ بْنِ مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هَذَا مُجَالِدٌ يُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: لَا هِجْرَةَ بَعْدَ فَتْحِ مَكَّةَ وَلَكِنْ أُبَايِعُهُ عَلَى الْإِسْلَامِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو یزید بن زریع نے خبر دی ‘ انہیں خالد نے ‘ انہیں ابوعثمان نہدی نے اور ان سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجاشع اپنے بھائی مجالد بن مسعود رضی اللہ عنہ کو لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ مجالد ہیں۔ آپ سے ہجرت پر بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد اب ہجرت باقی نہیں رہی۔ ہاں میں اسلام پر ان سے بیعت لے لوں گا۔
Narrated Abu `Uthman An-Nahdi: Mujashi (bin Mas`ud) took his brother Mujalid bin Musud to the Prophet and said, "This is Mujalid and he will give a pledge of allegiance to you for migration." The Prophet said, "There is no migration after the Conquest of Mecca, but I will take his pledge of allegiance for Islam."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 312
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3078
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں ابتدائے اسلام کی ہجرت از مکہ برائے مدینہ مراد ہے۔ جب مکہ شریف فتح ہو گیا‘ تو وہاں تو سے ہجرت کا سوال ہی ختم ہو گیا۔ روایت کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3078
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3078
حدیث حاشیہ: 1۔ ہجرت کے لغوی معنی ”چھوڑنے“ کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں اسلام کی خاطر اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ کر دارالسلام میں آجانے کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ اگر یہ ہجرت اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہوتو اسلام میں اس کا بہت اونچا درجہ ہے اوراگردنیا طلبی یا کسی اور غرض کے پیش نظر ہوتو ایسی ہجرت کا اللہ کے ہاں کوئی اجروثواب نہیں ہے۔ 2۔ جو لوگ پیسہ کمانے کے لیے اپنا اسلامی ملک چھوڑ کر دارالکفر چلے جاتے ہیں اور وہاں کا رہن سہن اور وہاں کی تہذیب وثقافت اختیار کرلیتے ہیں،ایسے لوگوں کو اپنے اس کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ ان کی یہ ہجرت کس ”کھاتے“ میں ہے۔ بہرحال حدیث میں مذکور ایک خاص ہجرت مراد ہے ہجرت کو قطعی طور پر ختم کرناقطعاً مقصود نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3078