(موقوف) حدثنا صدقة بن الفضل، اخبرنا عبدة، عن هشام، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:" خرجنا ونحن ثلاث مائة نحمل زادنا على رقابنا ففني زادنا حتى كان الرجل منا ياكل في كل يوم تمرة، قال رجل: يا ابا عبد الله، واين كانت التمرة تقع من الرجل، قال: لقد وجدنا فقدها حين فقدناها حتى اتينا البحر، فإذا حوت قد قذفه البحر فاكلنا منه ثمانية عشر يوما ما احببنا".(موقوف) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" خَرَجْنَا وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا يَأْكُلُ فِي كُلِّ يَوْمٍ تَمْرَةً، قَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَأَيْنَ كَانَتِ التَّمْرَةُ تَقَعُ مِنَ الرَّجُلِ، قَالَ: لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا حَتَّى أَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا حُوتٌ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا مَا أَحْبَبْنَا".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں وہب بن کیسان نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم (ایک غزوہ پر) نکلے۔ ہماری تعداد تین سو تھی، ہم اپنا راشن اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ آخر ہمارا توشہ جب (تقریباً) ختم ہو گیا، تو ایک شخص کو روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملنے لگی۔ ایک شاگرد نے پوچھا، اے ابوعبداللہ! (جابر رضی اللہ عنہ) ایک کھجور سے بھلا ایک آدمی کا کیا بنتا ہو گا؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب ایک کھجور بھی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اس کے بعد ہم دریا پر آئے تو ایک ایسی مچھلی ملی جسے دریا نے باہر پھینک دیا تھا۔ اور ہم اٹھارہ دن تک خوب جی بھر کر اسی کو کھاتے رہے۔
Narrated Wahb bin Kaisan: Jabir bin `Abdullah said, "We set out, and we were three-hundred men carrying our journey-food on our shoulders. Then we began to eat a single date each per day." A man asked (Jabir), "O Abu `Abdullah! How could a person be satisfied with a single date?" Jabir replied, "We realized the value of that one date when we could not even have that much till we reached the sea-shore, when all of a sudden we saw a huge fish cast by the sea. So, we ate of it as much as we wished for eighteen days."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 226
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2983
حدیث حاشیہ: غالباً وہیل مچھلی ہوگی جو بعض دفعہ اسی فٹ سے سو فٹ تک طویل ہوتی ہے اور جو آیات الٰہی میں سے ایک عجیب مخلوق ہے۔ اٹھارہ دن تک صرف اسی مچھلی پر گزارہ کرنا یہ محض اللہ کی طرف سے تائید غیبی تھی۔ یہ رجب ۸ھ کا واقعہ ہے۔ باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ یہ تین سو مجاہدین اپنا اپنا راشن اپنے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ زمانہ بھی ایسی تنگیوں کا تھا۔ نہ آج جیسا کہ ہر قسم کی سہولتیں میسر ہوگئی ہیں پھر بھی بعض مواقع پر سپاہی کو اپنا راشن خود اٹھانا پڑ جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2983
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2983
حدیث حاشیہ: 1۔ سمندر کی مخلوق بہت عجیب و غریب ہوتی ہے۔ وہیل مچھلی کی لمبائی بھی اسی سے سوفٹ تک ہوتی ہے۔ غالباً وہ اسی قسم کی مچھلی ہوگی جسے تین سو مجاہد اٹھارہ دن تک اپنی چاہت کے مطابق کھاتے رہے۔ 2۔ اس حدیث میں ہے کہ تین سو مجاہد اپنا اپنا راشن اپنے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ اس دور میں افواج کو ہر قسم کی سہولیات میسر نہیں تھیں اس لیے بعض اوقات انھیں اپنا اپنا راشن خود اٹھانا پڑتا تھا۔ امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ ایسا کرنا کوئی عیب نہیں بلکہ فوجی ٹریننگ کا ایک حصہ ہے۔ فوج کو چوکس رکھنے کے لیے انھیں ہر وقت متحرک رکھا جاتا ہے اور ان سے مشقت کے کام لیے جاتے ہیں تاکہ وہ سہل پسند نہ بن جائیں اور میدان جہاد میں سستی نہ دکھائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2983