(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، سمع محمد بن فضيل، عن عاصم، عن ابي عثمان، عن مجاشع رضي الله عنه، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم انا واخي، فقلت: بايعنا على الهجرة، فقال:" مضت الهجرة لاهلها"، فقلت: علام تبايعنا، قال:" على الإسلام والجهاد".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ فُضَيْلٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ مُجَاشِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَخِي، فَقُلْتُ: بَايِعْنَا عَلَى الْهِجْرَةِ، فَقَالَ:" مَضَتِ الْهِجْرَةُ لِأَهْلِهَا"، فَقُلْتُ: عَلَامَ تُبَايِعُنَا، قَالَ:" عَلَى الْإِسْلَامِ وَالْجِهَادِ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن فضیل سے سنا، انہوں نے عاصم سے، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے، اور ان سے مجاشع بن مسعود سلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ (فتح مکہ کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ ہم سے ہجرت پر بیعت لے لیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت تو (مکہ کے فتح ہونے کے بعد، وہاں سے) ہجرت کر کے آنے والوں پر ختم ہو گئی۔ میں نے عرض کیا، پھر آپ ہم سے کس بات پر بیعت لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام اور جہاد پر۔
Narrated Mujashi: My brother and I came to the Prophet and I requested him to take the pledge of allegiance from us for migration. He said, "Migration has passed away with its people." I asked, "For what will you take the pledge of allegiance from us then?" He said, "I will take (the pledge) for Islam and Jihad."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 208
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2962
حدیث حاشیہ: عہد رسالت میں ہجرت کا جو نشانہ تھا وہ فتح مکہ پر ختم ہوگیا۔ کیونکہ سارا عرب دارالاسلام بن گیا‘ بعد کے زمانوں میں مکی زندگی کا نقشہ سامنے آنے پر ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔ نیز اسلام اور جہاد بھی باقی ہے۔ لہٰذا ان سب پر بیعت لی جاسکتی ہے۔ بیعت سے مراد حلف اور اقرار ہے کہ اس پر ضرور قائم رہا جائے گا۔ خلاف ہرگز نہ ہوگا۔ بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں جو بیان ہوں گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2962
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2962
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلی حدیث کے مطابق صحابہ کرام ؓنے غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺکے ہاتھ پر جہاد کرنے کی بیعت کی کہ جب تک وہ زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔ اس بعیت کا مطلب یہ تھا کہ وہ میدان جنگ سے راہ فراراختیارنہیں کریں گے اگرچہ اس راستے میں ان کی جانیں ختم ہوجائیں۔ دوسری حدیث میں حضرت مجاشع ؓسے بیعت لینے کا ذکر ہے۔ وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے۔ اس وقت مکہ سے ہجرت کرنے کا موقع نہیں تھا کیونکہ وہ اب مکہ دارالسلام بن چکا تھا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ ہجرت کے لیے بیعت ان لوگوں سے لیتے تھے جو فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے تھے، جو لوگ اس کے بعد مسلمان ہوئے ان سے ہجرت کی بیعت نہیں لی جاتی تھی بلکہ ان سے جہاد کی بیعت لی جاتی تھی کیونکہ جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے، البتہ جس ملک میں انسان کا ایمان خطرے میں ہو، وہاں سے ہجرت کرکے ایسے علاقے میں جانا ضروری ہے جہاں ایمان محفوظ ہو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2962