وقال إسماعيل: اخبرني عبد العزيز بن عبد الله بن ابي سلمة، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، لا اعلمه إلا عن انس رضي الله عنه، قال: لما نزلت لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92 جاء ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، يقول الله تبارك وتعالى في كتابه لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92 وإن احب اموالي إلي بيرحاء، قال: وكانت حديقة كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يدخلها ويستظل بها ويشرب من مائها فهي إلى الله عز وجل، وإلى رسوله صلى الله عليه وسلم ارجو بره وذخره فضعها اي رسول الله حيث اراك الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بخ يا ابا طلحة ذلك مال رابح قبلناه منك ورددناه عليك، فاجعله في الاقربين، فتصدق به ابو طلحة على ذوي رحمه، قال: وكان منهم ابي، وحسان، قال: وباع حسان حصته منه من معاوية، فقيل له: تبيع صدقة ابي طلحة، فقال: الا ابيع صاعا من تمر بصاع من دراهم، قال: وكانت تلك الحديقة في موضع قصر بني حديلة الذي بناه معاوية".وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ، قَالَ: وَكَانَتْ حَدِيقَةً كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَدْخُلُهَا وَيَسْتَظِلُّ بِهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا فَهِيَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْجُو بِرَّهُ وَذُخْرَهُ فَضَعْهَا أَيْ رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَخْ يَا أَبَا طَلْحَةَ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ قَبِلْنَاهُ مِنْكَ وَرَدَدْنَاهُ عَلَيْكَ، فَاجْعَلْهُ فِي الْأَقْرَبِينَ، فَتَصَدَّقَ بِهِ أَبُو طَلْحَةَ عَلَى ذَوِي رَحِمِهِ، قَالَ: وَكَانَ مِنْهُمْ أُبَيٌّ، وَحَسَّانُ، قَالَ: وَبَاعَ حَسَّانُ حِصَّتَهُ مِنْهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَقِيلَ لَهُ: تَبِيعُ صَدَقَةَ أَبِي طَلْحَةَ، فَقَالَ: أَلَا أَبِيعُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ بِصَاعٍ مِنْ دَرَاهِمَ، قَالَ: وَكَانَتْ تِلْكَ الْحَدِيقَةُ فِي مَوْضِعِ قَصْرِ بَنِي حُدَيْلَةَ الَّذِي بَنَاهُ مُعَاوِيَةُ".
اور اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا کہ مجھے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے خبر دی ‘ انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے (امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا (جب سورۃ آل عمران کی) یہ آیت نازل ہوئی «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون»”تم نیکی ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اس مال میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو زیادہ پسند ہے۔“ تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون»”تم نیکی ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اس مال میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو زیادہ پسند ہے۔“ اور میرے اموال میں سب سے پسند مجھے بیرحاء ہے۔ بیان کیا کہ بیرحاء ایک باغ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جایا کرتے ‘ اس کے سائے میں بیٹھتے اور اس کا پانی پیتے (ابوطلحہ نے کہا کہ) اس لیے وہ اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ میں اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں۔ پس یا رسول اللہ! جس طرح اللہ آپ کو بتائے اسے خرچ کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واہ واہ شاباش ابوطلحہ یہ تو بڑا نفع بخش مال ہے ‘ ہم تم سے اسے قبول کر کے پھر تمہارے ہی حوالے کر دیتے ہیں اور اب تم اسے اپنے عزیزوں کو دیدو۔ چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے عزیزوں کو دے دیا۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جن لوگوں کو باغ آپ نے دیا تھا ان میں ابی اور حسان رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حسان رضی اللہ عنہ نے اپنا حصہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بیچ دیا تو کسی نے ان سے کہا کہ کیا آپ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا دیا ہوا مال بیچ رہے ہو؟ حسان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں کھجور کا ایک صاع روپوں کے ایک صاع کے بدل کیوں نہ بیچوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا یہ باغ بنی حدیلہ کے محلہ کے قریب تھا جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے (بطور قلعہ کے) تعمیر کیا تھا۔
Narrated Anas (ra): When the Holy Verse: 'By no means shall you attain Al-Birr (piety, righteousness, it means here Allah's Reward i.e., Paradise), unless you spend of that which you love..', (V 3:92) was revealed, Abu Talha went to Allah's Messenger (saws) and said, "O Allah's Messenger ! Allah, the Blessed, the Superior stated in His book: 'By no means shall you attain Birr, unless you spend of that which you love....' (V 3:92) and the most beloved property to me is Bairuha' (which was a garden where Allah's Messenger (saws) used to go to sit in its shade and drink from its water). I gave it to the Allah and His Messenger (saws) hoping for Allah's Reward in the Hereafter. So, Ao Allah's Messenger ! Use it as Allah orders you to use it." Allah's Messenger (saws) said, "Bravo! O Abu Talha, it is fruitful property. We have accepted it from you and now we return it to you. Distribute it amongst you relatives." So, Abu Talha distributed it amongst his relatives, amongst whom were Ubai and Hassan. When Hassan sold his share of that garden to Mu'awiyya, he was asked, "How do you see Abu Talha's Sadaqa?" He replied, "Who should not I sell a Sa' of date for Sa' of money ?" The garden was situated on the courtyard of the palace of Bani Jadila built by Mu'awiya.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 20
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2758
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب اس سے نکلا کہ ابو طلحہ نے آنحضرت ﷺ کو وکیل کیا تھا‘ آپ ﷺ نے ان کا صدقہ قبول فرما کر پھر ان ہی کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ اسے اپنے اقرباءمیں تقسیم کردو۔ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ حضرت معاویہ ؓ کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں کھجور کا ایک صاع روپیوں کے ایک صاع کے بدل کیوں نہ بیچوں، یعنی ایسی قیمت پھر کہا ں ملے گی گویا کھجور چاندی کے ہم وزن بک رہی ہے۔ کہتے ہیں صرف حسانؓ کا حصہ اس باغ میں حضرت معاویہ ؓنے ایک لاکھ درہم میں خریدا۔ چونکہ ابو طلحہ نے یہ باغ معین لوگو ں پر وقف کیا تھا لہذا ان کو اپنا حصہ بیچنا درست ہوا۔ بعضوں نے کہا ابو طلحہ ؓنے ان لوگوں پر وقف کرتے وقت یہ شرط لگادی تھی کہ اگران کو حاجت ہو تو بیچ سکتے ہیں ورنہ مال وقف کی بیع درست نہیں قصر بن حدیلہ کی تفصیل حافظ صاحب یوں فرماتے ہیں۔ وأما قصر بني حدیلة وھو بالمھملة مصغر ووھم من قاله بالجیم فنسب إلیھم القصر بسبب المجاورة و إلا فالذي بناہ ھو معاویة بن أبي سفیان و بنو حدیلة بالمھملة مصغر بطن من الأنصار وھم بنو معاویة بن عمرو بن مالك النجار وکانوا بتلك البقعة فعرفت بھم فلما اشتری معاویة حصة حسان بنی فیھا هذا القصر فعرفت بقصر بني حدیلة ذکر ذلك عمرو بن شیبة وغیرہ في أخبار المدینة ملکھم الحدیقة المذکورة ولم یفقھا علیھم اذلو وقفھا ما ساغ لحسان أن یبیعھا ووقع في أخبار المدینة لمحمد ابن الحسن المخزومي من طریق أبي بکر بن حزم أن ثمن حصة حسان مائة ألف درھم قبضھا من معاویة بن أبي سفیان (خلاصہ فتح الباری) اور لیکن قصر بنی حدیلہ حائے مہملہ کے ساتھ اور جس نے اسے جیم کے ساتھ نقل کیا یہ اس کا وہم ہے۔ یہ پڑوس کی وجہ سے بنو حدیلہ کی طرف منسوب ہوگیا تھا ورنہ اس کے بنانے والے حضرت معاویہ بن ابی سفیا ن ہیں اور بنو حدیلہ انصار کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ بنو معاویہ بن عمر و بن مالک نجار ہیں جو یہاں رہا کرتے تھے پس ان ہی سے یہ منسوب ہوگیا۔ پس جب حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حسان ؓ والا حصہ خرید لیا تو وہاں یہ قلعہ بنایا جو قصر بنو حدیلہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔ اسے عمرو بن شیبہ وغیرہ نے اخبار المدینہ میں ذکر کیا ہے‘ حضرت حسان نے اپنا حصہ حضرت معاویہ کو بیچ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر اس کو ان پر وقف کرتے تو اسے حسان فروخت نہیں کرسکتے تھے اور اخبار مدینہ میں ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حسان ؓ کو ان کے حصہ کی قیمت ایک لاکھ درھم ادا کی تھی۔ علامہ قسطلانی ؓفرماتے ہیں: وأجاب آخر بأن أبا طلحة حین وقفھا شرط جواز بیعھم عند الاحتیاج فإن الشرط بھذا الشرط قال بعضھم لجوازہ واللہ أعلم یعنی حضرت ابو طلحہ ؓ نے جب اسے وقف کیا تو حاجت کے وقت ان لوگوں کو بیچنے کی اجازت دے دی تھی اور اس شرط کے ساتھ وقف جائز ہے۔ لفظ حدیلہ کو بعض نے جیم کے ساتھ جدیلہ نقل کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ وہ صحیح حاء مضمون کے ساتھ حدیلہ ہے واللّٰہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2758
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2758
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنا وکیل بنا کر باغ ان کے حوالے کر دیا۔ آپ نے اسے قبول فرما کر پھر انہیں واپس کر دیا اور فرمایا: ”تم اسے اپنے قریبی رشتے داروں میں تقسیم کر دو۔ “(2) اس روایت میں ہے کہ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ سیدنا معاویہ ؓ کو بیچ ڈالا تو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ انہوں نے فرمایا: اب تو کھجور چاندی کے عوض فروخت ہو رہی ہے، یعنی ایسی گراں قیمت پھر کب ملے گی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے ایک لاکھ درہم میں ان کا حصہ خریدا تھا۔ چونکہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے یہ باغ معین لوگوں کو وقف کیا تھا، لہذا ان کے لیے اپنا حصہ فروخت کرنا جائز تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے ان لوگوں پر وقف کرتے وقت یہ شرط لگا دی تھی کہ اگر انہیں ضرورت ہو تو فروخت کر سکتے ہیں، بصورت دیگر وقف کو فروخت کرنا صحیح نہیں کیونکہ وقف میں تملیک نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2758