وقول الله تعالى: لا خير في كثير من نجواهم إلا من امر بصدقة او معروف او إصلاح بين الناس ومن يفعل ذلك ابتغاء مرضات الله فسوف نؤتيه اجرا عظيما سورة النساء آية 114، وخروج الإمام إلى المواضع ليصلح بين الناس باصحابه.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: لا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاحٍ بَيْنَ النَّاسِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 114، وَخُرُوجِ الْإِمَامِ إِلَى الْمَوَاضِعِ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ بِأَصْحَابِهِ.
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ نساء میں) «لا خير في كثير من نجواهم إلا من أمر بصدقة أو معروف أو إصلاح بين الناس ومن يفعل ذلك ابتغاء مرضاة الله فسوف نؤتيه أجرا عظيما»”ان کی اکثر کانا پھونسیوں میں خیر نہیں، سو ان (سرگوشیوں) کے جو صدقہ یا اچھی بات کی طرف لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے ہوں یا لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور جو شخص یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو جلدی ہم اسے اجر عظیم دیں گے۔“ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ امام خود اپنے اصحاب کے ساتھ مختلف مقامات پر جا کر لوگوں میں صلح کرائے۔
(مرفوع) حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا ابو غسان، قال: حدثني ابو حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه،" ان اناسا من بني عمرو بن عوف كان بينهم شيء، فخرج إليهم النبي صلى الله عليه وسلم في اناس من اصحابه يصلح بينهم، فحضرت الصلاة ولم يات النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء بلال فاذن بلال بالصلاة ولم يات النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء إلى ابي بكر، فقال: إن النبي صلى الله عليه وسلم حبس وقد حضرت الصلاة، فهل لك ان تؤم الناس؟ فقال: نعم، إن شئت، فاقام الصلاة، فتقدم ابو بكر، ثم جاء النبي صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف حتى قام في الصف الاول، فاخذ الناس بالتصفيح حتى اكثروا، وكان ابو بكر لا يكاد يلتفت في الصلاة، فالتفت، فإذا هو بالنبي صلى الله عليه وسلم وراءه، فاشار إليه بيده، فامره ان يصلي كما هو، فرفع ابو بكر يده فحمد الله واثنى عليه، ثم رجع القهقرى وراءه حتى دخل في الصف، وتقدم النبي صلى الله عليه وسلم فصلى بالناس، فلما فرغ اقبل على الناس، فقال: يا ايها الناس إذا نابكم شيء في صلاتكم اخذتم بالتصفيح، إنما التصفيح للنساء، من نابه شيء في صلاته فليقل سبحان الله، فإنه لا يسمعه احد إلا التفت يا ابا بكر، ما منعك حين اشرت إليك لم تصل بالناس؟ فقال: ما كان ينبغي لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ أُنَاسًا مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُبِسَ وَقَدْ حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ، فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِالتَّصْفِيحِ حَتَّى أَكْثَرُوا، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَا يَكَادُ يَلْتَفِتُ فِي الصَّلَاةِ، فَالْتَفَتَ، فَإِذَا هُوَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُصَلِّيَ كَمَا هُوَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلَاتِكُمْ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ، إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ، مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا الْتَفَتَ يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ لَمْ تُصَلِّ بِالنَّاسِ؟ فَقَالَ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ(قباء کے) بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہو گئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کے لیے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لا سکے۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اذان دی، ابھی تک چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تھے اس لیے وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہدایت کے مطابق) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہو گیا ہے، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے (نماز کے درمیان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ پہنچے۔ لوگ باربار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے۔ مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے (مگر جب باربار ایسا ہوا تو) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پیچھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے آ گئے اور صف میں مل گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے (مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہئے، کیونکہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہو جائے گا۔ اے ابوبکر! جب میں نے اشارہ بھی کر دیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے؟ انہوں نے عرض کیا، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔
Narrated Sahl bin Sa`d: There was a dispute amongst the people of the tribe of Bani `Amr bin `Auf. The Prophet went to them along with some of his companions in order to make peace between them. The time for the prayer became due but the Prophet did not turn up; Bilal pronounced the Adhan (i.e. call) for the prayer but the Prophet did not turn up, so Bilal went to Abu Bakr and said, "The time for the prayer is due and the Prophet i detained, would you lead the people in the prayer?" Abu Bakr replied, "Yes, you wish." So, Bilal pronounced the Iqama of the prayer and Abu Bakr went ahead (to lead the prayer), but the Prophet came walking among the rows till he joined the first row. The people started clapping and they clapped too much, and Abu Bakr used not to look hither and thither in the prayer, but he turned round and saw the Prophet standing behind him. The Prophet beckoned him with his hand to keep on praying where he was. Abu Bakr raised his hand and praised Allah and then retreated till he came in the (first) row, and the Prophet went ahead and lead the people in the prayer. When the Prophet finished the prayer, he turned towards the people and said, "O people! When something happens to you during the prayer, you start clapping. Really clapping is (permissible) for women only. If something happens to one of you in his prayer, he should say: 'Subhan Allah', (Glorified be Allah), for whoever hears him (saying so) will direct his attention towards him. O Abu Bakr! What prevented you from leading the people in the prayer when I beckoned to you (to continue)?" Abu Bakr replied, "It did not befit the son of Abu Quhafa to lead the prayer in front of the Prophet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 855
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2690
حدیث حاشیہ: یہ حدیث پیچھے بھی گزرچکی ہے۔ یہاں حضرت مجتہد مطلق امام بخاری ؒ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں آپ کے بمقام قباءبنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے جانے کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ صلح کو اتنی اہمیت ہے کہ اس کے لیے بڑی سے بڑی شخصیت بھی پیش قدمی کرسکتی ہے۔ بھلا رسول کریم ﷺ سے افضل، بہتر اور بڑا کون ہوگا۔ آپ خود اس پاک مقصد کے لیے قباءتشریف لے گئے (صلی اللہ علیه وسلم) یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں نادانی سے کچھ لغزش ہوجائے تو وہ بہرحال قابل معافی ہے۔ مگر امام کوچاہئے کہ غلطی کرنے والوں کو آئندہ کے لیے ہدایت کردے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2690
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2690
حدیث حاشیہ: (1) قبیلۂ بنو عمرو بن عوف مقام قباء میں آباد تھا۔ ان کا کسی وجہ سے آپس میں جھگڑا ہو گیا یہاں تک کہ ایک دوسرے کو پتھر مارنے تک نوبت پہنچ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر مسجد نبوی میں ادا کی، پھر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے قباء تشریف لے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں صلح کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس کے لیے بڑی سے بڑی شخصیت بھی پیش قدمی کر سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے۔ آپ خود اس عظیم مقصد کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2693) صلح کے بعد جب واپس تشریف لائے تو نماز عصر کھڑی ہو چکی تھی۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7190)(2) بعض فقہاء کا موقف ہے کہ امام اور قاضی کو فیصلہ کرنے کا اس وقت حق ہے جب اس کی عدالت میں مقدمہ دائر ہو۔ امام بخاری ؒ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم مقصد کے لیے مقدمہ دائر ہونا ضروری نہیں بلکہ امام اور قاضی خود وہاں جا کر فریقین کے درمیان صلح کرا دے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ازخود قبیلۂ بنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے قباء تشریف لے گئے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قبیلۂ بنو عمرو بن عوف کے درمیان جھگڑے کا سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ بہرحال یہ قبیلہ اوس خاندان کی شاخ تھا۔ (فتح الباري: 363/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2690