(مرفوع) حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: ذكر عروة، ان المسور بن مخرمة رضي الله عنهما، ومروان اخبراه، ان النبي صلى الله عليه وسلم حين جاءه وفد هوازن قام في الناس فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد،" فإن إخوانكم جاءونا تائبين، وإني رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا"، فقال الناس: طيبنا لك.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: ذَكَرَ عُرْوَةُ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَمَرْوَانَ أَخْبَرَاهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ قَامَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ،" فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا"، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا لَكَ.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ابن شہاب سے، ان سے عروہ نے ذکر کیا کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب فرمایا اور اللہ کی شان کے مطابق ثناء کے بعد آپ نے فرمایا: امابعد! یہ تمہارے بھائی توبہ کر کے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے (قیدیوں کو) واپس کرنا چاہے وہ واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ انہیں ان کا حصہ ملے (تو وہ بھی واپس کر دے) اور ہمیں اللہ تعالیٰ (اس کے بعد) سب سے پہلی جو غنیمت دے گا، اس میں سے ہم اسے معاوضہ دے دیں گے۔ لوگوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے (ان کے قیدی واپس کر کے) آپ کا ارشاد تسلیم کرتے ہیں۔
Narrated Al-Miswar bin Makhrama and Marwan: When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet he stood up amongst the people, Glorified and Praised Allah as He deserved, and said, "Then after: Your brethren have come to you with repentance and I see it logical to return to them their captives; so whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you like to stick to his share till we give him his right from the very first Fai (war booty) (1) which Allah will bestow on us, then (he can do so)." The people replied, "We do that (to return the captives) willingly as a favor for your sake."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 757
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2583
حدیث حاشیہ: مسور بن مخرمہ ؓ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، زہری و قریشی ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف ؓ کے بھانجے ہیں۔ ہجرت نبی کے دو سال بعد مکہ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ذی الحجہ 8 ھ میں مدینہ منورہ پہنچے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے حدیث کی سماعت کی اور ان کو یاد رکھا۔ بڑے فقیہ اور صاحب فضل اور دیندار تھے۔ عثمان ؓ کی شہادت تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ بعد شہادت مکہ میں منتقل ہوگئے اور معاویہ ؓ کی وفات تک وہیں مقیم رہے۔ انہوں نے یزید کی بیعت کو پسند نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی مکہ ہی میں رہے جب تک کہ یزید نے لشکر بھیجا اور مکہ کا محاصرہ کرلیا۔ اس وقت ابن زبیر ؓ مکہ ہی میں موجود تھے۔ چنانچہ اس محاصرہ میں مسور بن مخرمہ ؓ کو بھی منجنیق سے پھینکا ہوا ایک پتھر لگا۔ یہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ اس پتھر سے ان کی شہادت واقع ہوئی۔ یہ واقعہ ربیع الاول64ھ کی چاند رات کو ہوا۔ ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2583
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2583
حدیث حاشیہ: اس روایت کے مطابق آئندہ مالِ غنیمت کا معاملہ مبہم تھا، گویا وہ غائب تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ آنے والا مال ہبہ کر دیا۔ اس میں کوئی چیز حاضر نہیں تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شے معلوم ہو اور اس کا حصول ممکن ہو تو غائب چیز ہبہ کی جا سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2583