واشترى ابن عمر راحلة باربعة ابعرة مضمونة عليه، يوفيها صاحبها بالربذة، وقال ابن عباس: قد يكون البعير خيرا من البعيرين، واشترى رافع بن خديج بعيرا ببعيرين فاعطاه احدهما، وقال: آتيك بالآخر غدا رهوا إن شاء الله، وقال ابن المسيب: لا ربا في الحيوان البعير بالبعيرين والشاة بالشاتين إلى اجل، وقال ابن سيرين: لا باس بعير ببعيرين نسيئة.وَاشْتَرَى ابْنُ عُمَرَ رَاحِلَةً بِأَرْبَعَةِ أَبْعِرَةٍ مَضْمُونَةٍ عَلَيْهِ، يُوفِيهَا صَاحِبَهَا بِالرَّبَذَةِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ يَكُونُ الْبَعِيرُ خَيْرًا مِنَ الْبَعِيرَيْنِ، وَاشْتَرَى رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ بَعِيرًا بِبَعِيرَيْنِ فَأَعْطَاهُ أَحَدَهُمَا، وَقَالَ: آتِيكَ بِالْآخَرِ غَدًا رَهْوًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَقَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: لَا رِبَا فِي الْحَيَوَانِ الْبَعِيرُ بِالْبَعِيرَيْنِ وَالشَّاةُ بِالشَّاتَيْنِ إِلَى أَجَلٍ، وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: لَا بَأْسَ بَعِيرٌ بِبَعِيرَيْنِ نَسِيئَةً.
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک اونٹ چار اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ جن کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ مقام ربذہ میں وہ انہیں اسے دے دیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کبھی ایک اونٹ، دو اونٹوں کے مقابلے میں بہتر ہوتا ہے۔ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے میں خریدا تھا۔ ایک تو اسے دے دیا تھا، اور دوسرے کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ کل انشاء اللہ کسی تاخیر کے بغیر تمہارے حوالے کر دوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ جانوروں میں سود نہیں چلتا۔ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے، اور ایک بکری دو بکریوں کے بدلے ادھار بیچی جا سکتی ہے ابن سیرین نے کہا کہ ایک اونٹ دو اونٹوں کے بدلے ادھار بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔
(موقوف) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس رضي الله عنه، قال:" كان في السبي صفية، فصارت إلى دحية الكلبي، ثم صارت إلى النبي صلى الله عليه وسلم".(موقوف) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ فِي السَّبْيِ صَفِيَّةُ، فَصَارَتْ إِلَى دَحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قیدیوں میں صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ پہلے تو وہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ملیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2228
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ جانور سے جانور کا تبادلہ درست ہے۔ اسی طرح غلام کا غلام سے، لونڈی کا لونڈی سے، کیوں کہ یہ سب حیوان ہی تو ہیں۔ اور ہر حیوان کا یہی حکم ہوگا۔ بعض نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث میں کمی اور زیادتی کا ذکرنہیں ہے اور نہ ادھار کا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو امام مسلم نے نکالا۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے صفیہ ؓ کو سات لونڈیاں دے کر خریدا۔ ابن بطال نے کہا جب آپ نے دحیہ ؓ سے فرمایا کہ تو صفیہ ؓ کے بدل میں اور کوئی لونڈی قیدیوں میں سے لے لے تو یہ بیع ہوئی لونڈی کی بعوض لونڈی کے ادھار اور اس کا یہی مطلب ہے۔ (وحیدی) حضرت دحیہ کلبی ؓ خلیفہ کلبی کے بیٹے ہیں۔ مرتبہ والے صحابی ہیں۔ غزوہ احد اور بعد کے جملہ غزوات میں شریک ہوئے۔ 6ھ میں آنحضرت ﷺ نے ان کو قیصر شاہ روم کے دربار میں نامہ مبارک دے کر بھیجا تھا۔ قیصر نے مسلمان ہونا چاہا مگر اپنی عیسائی رعایا کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کیا۔ یہ دحیہ ؓ وہی صحابی ہیں کہ حضرت جبریل ؑ اکثر ان کی شکل میں آنحضرت ﷺ کے پاس تشریف لایا کرتے تھے۔ آخر میں حضرت دحیہ کلبی ؓ ملک شام میں چلے گئے اور عہد معاویہ تک وہیں رہے۔ بہت سے تابعین نے ان سے روایت کی ہے۔ حدیث صفیہ ؓ میں ان ہی کا ذکر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2228
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2228
حدیث حاشیہ: (1) مذکورہ روایت انتہائی مختصر ہے۔ دوسری روایات میں تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ کو دحیہ کلبی ؓ سے سات غلاموں کے عوض خریدا۔ (مسند أحمد: 123/3) اسی طرح حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو غلاموں کے عوض ایک غلام خرید کیا۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4113(1602) (2) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا،اونٹ ختم ہوگئے تو آپ نے انھیں صدقے کے اونٹ آنے پر ادھار اونٹ لینے کا حکم فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں ایک اونٹ صدقے کے دواونٹوں کے بدلے میں لیتا تھا، یعنی دو اونٹوں کی ادائیگی صدقے کے اونٹ آنے پر ہوگی۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3357) ایک روایت ميں ان روایات کے معارض ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار کی فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 288/5) محدثین کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس روایت میں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے اور ایسا کرنا کسی کے نزدیک جائز نہیں۔ (معالم السنن: 29/5) ہمارے رجحان کے مطابق حیوان کی حیوان کے عوض خریدوفروخت ادھار اور کمی بیشی کے ساتھ مطلق طور پر جائز ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2228