47. باب: اگر ایک شخص نے کوئی چیز خریدی اور جدا ہونے سے پہلے ہی کسی اور کو للہ دے دی پھر بیچنے والے نے خریدنے والے کو اس پر نہیں ٹوکا، یا کوئی غلام خرید کر (بیچنے والے سے جدائی سے پہلے ہی اسے) آزاد کر دیا۔
(47) Chapter. What is said if somebody buys a thing and gives it as a present to someone else at that very moment before separating from the seller, and the seller has had no objection to buyer’s action; or if someone buys a slave and then manumits him?
(مرفوع) قال ابو عبد الله: وقال الليث: حدثني عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، قال: بعت من امير المؤمنين عثمان بن عفان، مالا بالوادي بمال له بخيبر، فلما تبايعنا، رجعت على عقبي حتى خرجت من بيته خشية ان يرادني البيع، وكانت السنة: ان المتبايعين بالخيار حتى يتفرقا، قال عبد الله: فلما وجب بيعي وبيعه رايت اني قد غبنته باني سقته إلى ارض ثمود بثلاث ليال، وساقني إلى المدينة بثلاث ليال.(مرفوع) قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بِعْتُ مِنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، مَالًا بِالْوَادِي بِمَالٍ لَهُ بِخَيْبَرَ، فَلَمَّا تَبَايَعْنَا، رَجَعْتُ عَلَى عَقِبِي حَتَّى خَرَجْتُ مِنْ بَيْتِهِ خَشْيَةَ أَنْ يُرَادَّنِي الْبَيْعَ، وَكَانَتِ السُّنَّةُ: أَنَّ الْمُتَبَايِعَيْنِ بِالْخِيَارِ حَتَّى يَتَفَرَّقَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَلَمَّا وَجَبَ بَيْعِي وَبَيْعُهُ رَأَيْتُ أَنِّي قَدْ غَبَنْتُهُ بِأَنِّي سُقْتُهُ إِلَى أَرْضِ ثَمُودَ بِثَلَاثِ لَيَالٍ، وَسَاقَنِي إِلَى الْمَدِينَةِ بِثَلَاثِ لَيَالٍ.
ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہ میں نے امیرالمؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی وادی قریٰ کی زمین، ان کی خیبر کی زمین کے بدلے میں بیچی تھی۔ پھر جب ہم نے بیع کر لی تو میں الٹے پاؤں ان کے گھر سے اس خیال سے باہر نکل گیا کہ کہیں وہ بیع فسخ نہ کر دیں۔ کیونکہ شریعت کا قاعدہ یہ تھا کہ بیچنے اور خریدنے والے کو (بیع توڑنے کا) اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہماری خرید و فروخت پوری ہو گئی اور میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو نقصان پہنچایا ہے کیونکہ (اس تبادلہ کے نتیجے میں، میں نے ان کی پہلی زمین سے) انہیں تین دن کے سفر کی دوری پر ثمود کی زمین کی طرف دھکیل دیا تھا اور انہوں نے مجھے (میری مسافت کم کر کے) مدینہ سے صرف تین دن کے سفر کی دوری پر لا چھوڑا تھا۔
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (ra): I bartered my property in Khaibar to 'Uthman (chief of the faithful believers) for his property in Al-Wadi. When we finished the deal, I left immediately and got out of his house lest he should cancel the deal, for the tradition was that they buyer and the seller had the option of canceling the bargain unless they separated. When out deal was completed, I came to know that I have been unfair to 'Uthman, for by selling him my land I caused him to be in a land of Thamud, at a distance of three days journey from Al-Madina, while he made me neared to Al-Madina, at a distance of three days journey from my former land.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 328
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2116
حدیث حاشیہ: شروع باب میں جو دو صورتیں مذکور ہوئی ہیں ان دونوں صورتوں میں اب بائع کو فسخ بیع کا اختیار نہ رہے گا کیوں کہ اس نے مشتری کے تصرف پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ سکوت کیا، باب کی حدیث میں صرف ہبہ کا ذکر ہے، مگر اعتاق کو ہبہ پر قیاس کیا، دونوں تبرع کی قسم میں سے ہیں۔ اور اس باب کے لانے سے امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ باب کی حدیث سے خیار مجلس کی نفی نہیں ہوتی۔ جس کا ثبوت اوپر ابن عمر ؓ کی حدیث سے ہو چکا ہے کیوں کہ یہ خیار اس واسطے جاتا رہا کہ مشتری نے تصرف کیا اور بائع نے سکوت کیا تو اس کا سکوت مبطل خیار ہوگیا۔ ابن بطال نے کہا جو لوگ کہتے ہیں کہ بغیر تفرق ابدان کے بیع پوری نہیں ہوتی وہ مشتری کا تصرف قبل از تفرق جائز نہیں رکھتے۔ اور یہ حدیث ان پر حجت ہے۔ اب رہا قبضہ سے پہلے بیع کرنا، تو امام شافعی ؒ اور محمد ؒ کے نزدیک مطلقاً درست نہیں، اور امام ابوحنیفہ ؒ اور ابویوسف ؒ کے نزدیک منقول کی بیع درست نہیں غیر منقول کی درست ہے۔ اور ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ اور اوزاعی اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ ناپ تول کی جو چیزیں بکتی ہیں، ان کا قبضہ سے پہلے بیچنا درست نہیں باقی چیزوں کا درست ہے۔ قسطلانی نے کہا حضرت عمر ؓ کی یہ حدیث تو ان صحیح حدیثوں کے معارض نہیں ہیں جن سے خیار مجلس ثابت ہے کیوں کہ احتمال ہے کہ عقد بیع کے بعد آنحضرت ﷺ حضرت عمر ؓ سے تھوڑی دیر کے لیے آگے یا پیچھے بڑھ گئے ہوں، اس کے بعد ہبہ کیا ہو۔ واللہ أعلم (وحیدی) آپ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے وہ اونٹ لے کر اسی وقت ان کے صاحب زادے عبداللہ ؓ کو ہبہ کر دیا اور حضرت عمر ؓ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو بیع درست ہو گئی اور خیار مجلس باقی نہ رہا۔ آخر باب میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے ایک معاملہ کا ذکر ہے جس میں مذکوروادی قریٰ ایک بستی ہے تبوک کے قریب، یہ جگہ مدینہ سے چھ سات منزلہ پر ہے اور ثمود کی قوم کے زمانہ میں اس جگہ آبادی تھی، قسطلانی نے کہا کہ واقعہ مذکور کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ بائع اور مشتری کو اپنے ارادے سے جدا ہونا درست ہے یا بیع کا فسخ کرنا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2116
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2116
حدیث حاشیہ: (1) جس وادی میں حضرت ابن عمر ؓ کی زمین تھی اس کا نام وادئ قُری ہے جو مدینہ طیبہ سے چھ سات منزل دور تبوک کے قریب تھی اور قوم ثمود اسی جگہ آباد تھی۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے خیار مجلس ثابت کیا ہے۔ خیار مجلس کے اثبات کے لیے حضرت عمر ؓ کے سرکش اونٹ والا واقعہ رکاوٹ کا باعث تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے عنوان میں کچھ الفاظ کا اضافہ کرکے اس کا جواب دیا ہے۔ وہاں خیار مجلس اس لیے جاتا رہا کہ مشتری نے بائع کی موجودگی میں تصرف کیا اور اس کے سکوت (خاموشی) نے خیار مجلس کو ختم کردیا۔ (3) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابن عمر ؓ کے زمانے سے پہلے تفرق بالا بدان متروک ہوچکا تھا لیکن یہ خیال حدیث کے ظاہری الفاظ کے خلاف ہے،نیز ایوب بن سوید کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ہم جب خریدوفروخت کرتے تو بائع اور مشتری دونوں کو اختیار رہتا جب تک وہ الگ الگ نہ ہوجاتے،چنانچہ میں نے حضرت عثمان ؓ کے ساتھ ایک سودا کیا،پھر انھوں نے یہ واقعہ بیان کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ سے سودا کرتے وقت تک بھی اس پر عمل ہوتا تھا۔ (فتح الباري: 424/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2116