الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اعتکاف کے مسائل کا بیان
The Book of Itikaf
11. بَابُ زِيَارَةِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا فِي اعْتِكَافِهِ:
11. باب: عورت اعتکاف کی حالت میں اپنے خاوند سے ملاقات کر سکتی ہے۔
(11) Chapter. The visit of the wife to her husband while he was in Itikaf.
حدیث نمبر: 2038
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن علي بن الحسين رضي الله عنه، ان صفية زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته. ح حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام بن يوسف، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن علي بن الحسين،" كان النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد وعنده ازواجه فرحن، فقال لصفية بنت حيي: لا تعجلي حتى انصرف معك، وكان بيتها في دار اسامة، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم معها، فلقيه رجلان من الانصار، فنظرا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ثم اجازا، وقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم: تعاليا إنها صفية بنت حيي، قالا: سبحان الله، يا رسول الله، قال: إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم، وإني خشيت ان يلقي في انفسكما شيئا".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ صَفِيَّةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ. ح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ،" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَعِنْدَهُ أَزْوَاجُهُ فَرُحْنَ، فَقَالَ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ: لَا تَعْجَلِي حَتَّى أَنْصَرِفَ مَعَكِ، وَكَانَ بَيْتُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا، فَلَقِيَهُ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَنَظَرَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَجَازَا، وَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَعَالَيَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ، قَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُلْقِيَ فِي أَنْفُسِكُمَا شَيْئًا".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی (دوسری سند) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں (اعتکاف میں) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جلدی نہ کر، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ رضی اللہ عنہ میں تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔ لیکن آپ نے فرمایا ٹھہرو! ادھر سنو! یہ صفیہ بنت حیی ہیں (جو میری بیوی ہیں) ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ! یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ شیطان (انسان کے جسم میں) خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی (بری) بات نہ ڈال دے۔

Narrated `Ali bin Al-Husain (from Safiya the Prophet's wife): The wives of the Prophet were with him in the mosque (while he was in I`tikaf) and then they departed and the Prophet said to Safiya bint Huyai, "Don't hurry up, for I shall accompany you," (and her dwelling was in the house of Usama). The Prophet went out and in the meantime two Ansari men met him and they looked at the Prophet and passed by. The Prophet said to them, "Come here. She is (my wife) Safiya bint Huyai." They replied, "Subhan Allah, (How dare we think of evil) O Allah's Apostle! (we never expect anything bad from you)." The Prophet replied, "Satan circulates in the human being as blood circulates in the body, and I was afraid lest Satan might insert an evil thought in your minds."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 33, Number 254


   صحيح البخاري7171صفية بنت حييالشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم
   صحيح البخاري3101صفية بنت حييالشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
   صحيح البخاري6219صفية بنت حييالشيطان يجري من ابن آدم مبلغ الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما
   صحيح البخاري3281صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما سوءا
   صحيح البخاري2039صفية بنت حييالشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم
   صحيح البخاري2038صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم وإني خشيت أن يلقي في أنفسكما شيئا
   صحيح البخاري2035صفية بنت حييالشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
   صحيح مسلم5679صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شرا
   سنن أبي داود2470صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم فخشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
   سنن أبي داود4994صفية بنت حييالشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم فخشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
   سنن ابن ماجه1779صفية بنت حييالشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2038 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2038  
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث طرق مختلفہ کے ساتھ کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امام ؒ نے اس سے بہت سے مسائل کے لیے استنباط فرمایا ہے۔
علامہ ابن حجر ؒ اس کے ذیل میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔
وَفِي الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ جَوَازُ اشْتِغَالِ الْمُعْتَكِفِ بِالْأُمُورِ الْمُبَاحَةِ مِنْ تَشْيِيعِ زَائِرِهِ وَالْقِيَامِ مَعَهُ وَالْحَدِيثِ مَعَ غَيْرِهِ وَإِبَاحَةُ خَلْوَةِ الْمُعْتَكِفِ بِالزَّوْجَةِ وَزِيَارَةُ الْمَرْأَةِ لِلْمُعْتَكِفِ وَبَيَانُ شَفَقَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمَّتِهِ وَإِرْشَادُهُمْ إِلَى مَا يَدْفَعُ عَنْهُمُ الْإِثْمَ وَفِيهِ التَّحَرُّزُ مِنَ التَّعَرُّضِ لِسُوءِ الظَّنِّ وَالِاحْتِفَاظُ مِنْ كَيَدِ الشَّيْطَان والاعتذار قَالَ بن دَقِيقِ الْعِيدِ وَهَذَا مُتَأَكِّدٌ فِي حَقِّ الْعُلَمَاءِ وَمَنْ يُقْتَدَى بِهِ فَلَا يَجُوزُ لَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا فِعْلًا يُوجِبُ سُوءَ الظَّنِّ بِهِمْ وَإِنْ كَانَ لَهُمْ فِيهِ مَخْلَصٌ لِأَنَّ ذَلِكَ سَبَبٌ إِلَى إِبْطَالِ الِانْتِفَاعِ بِعِلْمِهِمْ وَمِنْ ثَمَّ قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُبَيِّنَ لِلْمَحْكُومِ عَلَيْهِ وَجْهَ الْحُكْمِ إِذَا كَانَ خَافِيًا نَفْيًا لِلتُّهْمَةِ وَمِنْ هُنَا يَظْهَرُ خَطَأُ مَنْ يَتَظَاهَرُ بِمَظَاهِرِ السُّوءِ وَيَعْتَذِرُ بِأَنَّهُ يُجَرِّبُ بِذَلِكَ عَلَى نَفْسِهِ وَقَدْ عَظُمَ الْبَلَاءُ بِهَذَا الصِّنْفِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَفِيهِ إِضَافَةُ بُيُوتُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِنَّ وَفِيهِ جَوَازُ خُرُوجِ الْمَرْأَةِ لَيْلًا وَفِيهِ قَوْلُ سُبْحَانَ اللَّهِ عِنْدَ التَّعَجُّب الخ (فتح الباري)
مختصر مطلب یہ کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر ان کو رخصت کرسکتا ہے اور غیروں کے ساتھ بات بھی کرسکتا ہے۔
اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے یعنی اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آسکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقت نبوی کا بھی اثبات ہے اور آپ ﷺ کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے دفع کرنے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔
ابن دقیق العید نے کہا کہ علماءکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کرسکیں، اگرچہ اس کام میں ان کے اخلاص بھی ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم کا انتفاع ختم ہوجانے کا احتمال ہے۔
اسی لیے بعض علماءنے کہا کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اس نے فیصلہ دیا ہے اس کی پوری وجوہ اس کے سامنے بیان کردے تاکہ وہ کوئی غلط تہمت حاکم پر نہ لگا سکے۔
اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برامظاہرہ نہ کرے۔
ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2038   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2038  
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے، مثلاً:
معتکف کے لیے جائز ہے کہ وہ آنے والوں کو خندہ پیشانی سے ملے اور انہیں اعزاز و اکرام سے رخصت کرے۔
وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتا ہے۔
اس کے لیے اپنی بیوی سے خلوت بھی جائز ہے، یعنی تنہائی میں اس سے ضروری اور مناسب بات چیت کر سکتا ہے، نیز اس کی بیوی اس کی ملاقات کے لیے اعتکاف گاہ میں آ سکتی ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بوقت ضرورت اپنے گھر سے نکل سکتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے دو صحابۂ کرام ؓ کی طرف اس بات کو منسوب نہیں کیا کہ وہ آپ کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہیں کیونکہ آپ ان کے ایمان کی سچائی اور اخلاص سے خوب واقف تھے، البتہ انہیں اس بات سے خبردار کیا کہ مبادا شیطان کے وسوسے کا شکار ہو جائیں جو ان کی تباہی و بربادی کا باعث بن جائے۔
(فتح الباري: 355/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2038   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4994  
´حسن ظن کا بیان۔`
ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، میں ایک رات آپ کے پاس آپ سے ملنے آئی تو میں نے آپ سے گفتگو کی اور اٹھ کر جانے لگی، آپ مجھے پہنچانے کے لیے میرے ساتھ اٹھے اور اس وقت وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے گھر میں رہتی تھیں، اتنے میں انصار کے دو آدمی گزرے انہوں نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے، آپ نے فرمایا: تم دونوں ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ان دونوں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! (یعنی کیا ہم آپ کے سلسلہ میں بدگمانی کر سکتے ہیں) آپ نے فرمایا: شیطان آدمی میں اسی طرح پھرتا ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4994]
فوائد ومسائل:
1) اعتکاف کے دوران میں جائزہے کہ بیوی معتکف کو ملنے کے لئے آئےاور وہ آپس میں گفتگو کریں۔

2) معتکف اپنی فطری ضروریات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔
مثلا قضائے حاجت یا ضروری غسل لے لئے جبکہ مسجد میں ان کا معقول انتظام نہ ہو، اسی طرح شدید بیماری کی حالت میں بھی جبکہ مسجد میں طبی امداد پہنچنے کے مواقع نہ ہوں تو اس قسم کے تمام حالات میں مسجد سے باہر جانا جائز ہے۔

3) انسان کو تہمت اور شبہے کے مقامات سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہیئے۔
نبیﷺ نے اپنی اہلیہ محترمہ کا تعارف کرا کے اس شہبے کا ازالہ فرما دیا۔

4) شیطان انسان کے جسم میں ایسے گردش کرتا ہے جیسے خون اس لیے اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے تعوذ (أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) بہت زیادہ بڑھنا چاہئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4994   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1779  
´معتکف کے گھر والے مسجد میں آ کر اس سے مل سکتے ہیں۔`
ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئیں، اور آپ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے، عشاء کے وقت کچھ دیر آپ سے باتیں کیں، پھر اٹھیں اور گھر جانے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ انہیں پہنچانے کے لیے اٹھے، جب وہ مسجد کے دروازہ پہ پہنچیں جہاں پہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ تھی تو قبیلہ انصار کے دو آدمی گزرے، ان دونوں نے آپ کو سلام کیا، پھر چل پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی جگہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1779]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اعتکاف کرنے والے سے دوسرے لوگ مل جل سکتے ہیں اور ضروری بات چیت کر سکتے ہیں۔

(2)
اعتکاف والے سے اس کی بیوی بھی مسجد میں آ کر ملاقات کر سکتی ہے۔

(3)
متعکف کسی ضرورت سے اعتکا ف کی جگہ سے اٹھ کر مسجد کے دروازے تک جا سکتا ہے۔

(4)
عالم کو اپنی عزت و شرف کا خیال رکھنا چا ہیے اور لوگوں کو ایسا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ شک وشبہ کا اظہا ر کریں۔

(5)
خاوند اپنی بیوی کا نام لے سکتا ہے اور اسے نام لے کر بلا بھی سکتا ہے۔

(6)
  ان دو صحابیو ں نے رسول اللہ ﷺ کی اس بات سے تکلیف محسوس کی کیونکہ انھیں محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتے۔

(7)
رسول اللہ ﷺ نے ان کا یہ احساس دور کر نے کے لئے وضاحت فرما دی کہ تم نے میرے بارے میں کوئی غلط بات نہیں سوچی لیکن شیطان وسوسہ ڈال سکتا ہے۔

(8)
نبی ﷺ کی یہ وضاحت اس لئے باعث رحمت تھی کیونکہ اس طرح شیطان کے وسوسے کا راستہ بند ہو گیا ورنہ نبی ﷺ کے بارے میں کوئی ایسی ویسی سوچ ایمان سے محرومی کا با عث بھی ہو سکتی تھی۔

(9)
تعجب کے موقعہ پر سبحان اللہ کہنا درست ہے۔

(10)
شیطان جنات میں سے ہونے کی وجہ سے انسان پر غیر محسوس طور پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے اس کا وسوسہ ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو انسان کے ایمان کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے ان وسوسوں کے شر سے بچنے کے لئے لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1779   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5679  
حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے، میں رات کو آپﷺ کی ملاقات کے لیے آئی اور آپ سے گفتگو کرتی رہی، پھر میں واپس جانے کے لیے اٹھی تو آپ بھی میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ مجھے رخصت کریں اور اس (صفیہ) کا گھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کے احاطہ میں تھا تو دو انصاری گزرے، جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تیز تیز چلنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5679]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
علي رسلكما:
اپنی چال چلتے رہو،
سکون واطمینان سے چلو۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اعتکاف میں بیٹھنے والے کے پاس اس کی بیوی جا کر گفتگو کر سکتی ہے اور وہ اسے رخصت کرنے کے لیے باہر آ سکتا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے انتہائی شفیق اور ہمدرد تھے،
ان کو ہر ایسے کام سے آگاہ کرتے تھے،
جو ان کے لیے گناہ کا باعث بن سکتا تھا اور انسان کو شیطان سے بچ کر رہنا چاہیے،
وہ انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اسے راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور انصاریوں نے،
اس بات پر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہ کوئی مسلمان آپ کے بارے میں بھی بدگمانی کا شکار ہو سکتا ہے،
سبحان اللہ کہا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5679   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2035  
2035. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے تو وہ آپ کی زیارت کے لیے آئیں اور کچھ دیر گفتگو کی۔ پھر اٹھ کر جانےلگیں تو نبی ﷺ بھی انھیں پہنچانے کے لیے ساتھ ہی اٹھے۔ جب آپ مسجد کے دروازے کےقریب حضرت اُم سلمہ ؓ کے دروازے کے پاس پہنچے تو انصارکے دو آدمی ادھر سے گزرے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ٹھہرجاؤ، یہ صفیہ بنت حییی ٍ ہے۔ ان دونوں نےکہا: سبحان اللہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!(کیا آپ ہم پر بدگمان ہیں؟) اور انھیں یہ چیز بہت شاق گزری تو نبی ﷺ نے فرمایا: شیطان، خون کی طرح انسان کے رگ و ریشے میں گردش کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا تمھارے دلوں میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2035]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ معتکف ضروری کام کے لیے مقام اعتکاف سے باہر نکل سکتا ہے۔
آپ ﷺ حضرت صفیہ ؓ کے ساتھ اس لیے نکلے کہ وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔
کہتے ہیں کہ ان کا مکان بھی مسجد سے دور تھا، بعض روایتوں میں ان دیکھنے والوں کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ جانا چاہا تھا، آنحضرت ﷺ نے حقیقت حال سے آگاہ فرمانے کے لیے ان کو بلایا۔
معلوم ہوا کہ کسی ممکن شک کو دور کر دینا بہرحال اچھا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2035   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6219  
6219. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ صفیہ بنت حبیی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرنے کے لیے آئیں جبکہ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد میں متعکف تھے۔ انہوں نے عشاء کے وقت تھوڑی دیر تک آپ ﷺ سے باتیں کیں۔ پھر واپس جانے کے لیے اٹھیں تو نبی ﷺ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تاکہ انہیں واپس چھوڑنے جائیں، جب وہ مسجد کے اس دروازے کے پاس پہنچیں جہاں نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام سلمہ ؓ کا گھر تھا تو ان دونوں کے پاس سے دو انصاری آدمی گزرے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ دیکھو! میری بیوی سیدہ صفیہ بن حیبی ہے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! سبحان اللہ۔ ان حضرات پر یہ بات بہت گراں گزری۔ آپ نے فرمایا: شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جس طرح رگوں میں خون گردش کرتا ہے، مجھے خطرہ محسوس ہوا مبادا تمہارے دلوں میں کوئی چیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6219]
حدیث حاشیہ:
ایسے مواقع پر کسی پیدا ہونے والی غلط فہمی کو پہلے ہی دفع کر دینا بھی سنت نبوی ہے جو بہت ہی باعث ثواب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6219   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3101  
3101. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیاکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لیے آئیں جبکہ آپ رمضان کے آخری عشرے کامسجد میں اعتکاف کیے ہوئے تھے۔ پھر وہ واپس جانے کے لیے اٹھیں تو رسول اللہ ﷺ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ مسجد نبوی کے اس دروازے کے پاس پہنچ گئے جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ ؓ کے دروازے کے پاس ہے تو ان دونوں کے پاس سے انصار کے دو آدمی گزرے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا پھر جلدی سے آگے بڑھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: آرام سے چلو۔ (یہ میری بیوی حضرت صفیہ ؓ ہیں)۔ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! سبحان اللہ۔ اور ان پر یہ شاق گزرا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح پھرتا ہے۔ مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ مبادا تمہارے والوں میں کوئی بدگمانی پیدا کردے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3101]
حدیث حاشیہ:
ان اصحاب کرام پر شاق اس لئے گزرا کیونکہ وہ دونوں سچے مومن تھے‘ ان کو یہ رنج ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے ہماری نسبت یہ خیال فرمایا کہ ہم آپ پر بدگمانی کریں گے۔
درحقیقت آپ ﷺ نے ان کا ایمان بچالیا‘ پیغمبروں کی نسبت ایک ذرا سی بد گمانی کرنا بھی کفر اور باعث زوال ایمان ہے‘ اس حدیث سے امام بخاری ؒنے باب کا مطلب یوں نکالا کہ دروازے کو ام المومنین ام سلمہ کا دروازہ کہا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3101   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3281  
3281. حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ معتکف تھے تو میں ایک رات آپ سے ملاقات کے لیے آئی اور آپ سے باتیں کرتی رہی۔ پھر میں اٹھی اور اپنے گھر جانے لگی تو آپ بھی میرے ساتھ اُٹھے تاکہ مجھے گھر چھوڑ آئیں۔ ان کی رہائش اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھی۔ اس دوران میں دو انصاری مرد وہاں سے گزرے۔ جب انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اپنی جگہ ٹھہر جاؤ۔ یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ؓ ہے۔ انھوں نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ! سبحان اللہ (ہم ایسا ویسا گمان کرسکتے ہیں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا، مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برائی یا اور کوئی چیز ڈال دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3281]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ انسان کو کسی کے لیے ذرا بھی شبہ پیدا کرنے کا موقع نہ دینا چاہئے، آنحضرت ﷺ نے یہی سوچ کر ان کے سامنے اصل معاملہ رکھ دیا، اور ان کو غلط وسوسہ سے بچالیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3281   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2035  
2035. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے تو وہ آپ کی زیارت کے لیے آئیں اور کچھ دیر گفتگو کی۔ پھر اٹھ کر جانےلگیں تو نبی ﷺ بھی انھیں پہنچانے کے لیے ساتھ ہی اٹھے۔ جب آپ مسجد کے دروازے کےقریب حضرت اُم سلمہ ؓ کے دروازے کے پاس پہنچے تو انصارکے دو آدمی ادھر سے گزرے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ٹھہرجاؤ، یہ صفیہ بنت حییی ٍ ہے۔ ان دونوں نےکہا: سبحان اللہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!(کیا آپ ہم پر بدگمان ہیں؟) اور انھیں یہ چیز بہت شاق گزری تو نبی ﷺ نے فرمایا: شیطان، خون کی طرح انسان کے رگ و ریشے میں گردش کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا تمھارے دلوں میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2035]
حدیث حاشیہ:
(1)
دنیاوی معاملات سے الگ تھلگ ہو کر تقرب الٰہی کی نیت سے مخصوص ایام میں کچھ وقت مسجد میں قیام کرنے کو شرعاً اعتکاف کہا جاتا ہے۔
اگر مسجد میں قیام کے دوران تقرب الٰہی کی نیت نہیں یا تقرب الٰہی کی نیت تو ہے لیکن مسجد میں قیام نہیں تو ان دونوں صورتوں کو شرعی اعتکاف نہیں کہا جائے گا۔
(2)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسجد میں قیام کے دوران اپنی کوئی دنیاوی ضرورت پوری کرنا اعتکاف کے منافی ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اسی موضوع کو بیان کیا ہے کہ معتکف اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر صرف مسجد کے دروازے تک آ سکتا ہے اور ایسا کرنا اعتکاف کے منافی نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھر مسجد نبوی کے آس پاس تھے۔
ایک دفعہ جب آپ معتکف ہوئے تو رات کے وقت گھریلو معاملات کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے ازواج مطہرات آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
حضرت صفیہ ؓ کا گھر ذرا دور تھا۔
وہ رات کے وقت دیر سے آئیں۔
جب ازواج مطہرات مجلس کے اختتام پر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے اٹھیں تو حضرت صفیہ بھی تیار ہو گئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک لیا، ایک تو دیر سے آنے کی بنا پر تاکہ انہیں بھی دوسری ازواج کی طرح پورا وقت آپ کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملے، نیز اس لیے بھی کہ ان کا گھر دور تھا اور انہیں گھر تک پہنچانے کے لیے آپ نے انہیں روک لیا۔
اس دوران میں دو انصاری حضرات سے ملاقات ہوئی جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ تقرب الٰہی کی نیت سے مخصوص ایام میں مسجد کے اندر قیام کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ معتکف اس دوران مسجد میں اپنی کوئی دنیاوی ضرورت نہیں پوری کر سکتا۔
ایسا کرنا جائز ہے اور یہ اعتکاف کے منافی نہیں۔
(فتح الباري: 353/4،354)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2035   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2039  
2039. حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں جبکہ آپ اعتکاف کی حالت میں تھے۔ پھر جب وہ واپس جانے لگیں تو آپ بھی ان کے ساتھ چلے۔ اس دوران میں آپ کو ایک انصاری جوان نے دیکھا۔ جب آپ کی نظر اس پر پڑی تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ادھر آؤ!یہ (میری بیوی) صفیہ ہے۔۔۔ سفیان نے بعض اوقات (ھی صفية کی بجائے) هذه صفية کے الفاظ کہے۔۔۔ (نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہ وضاحت ضروری سمجھی) کیونکہ شیطان ابن آدم کے رگ وریشے میں خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔ (علی بن عبداللہ کہتے ہیں) میں نے اپنے شیخ سفیان سے کہا: حضرت صفیہ ؓ آپ کے پاس رات کو آئی تھیں؟تو انھوں نے جواب دیا: رات ہی تو تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2039]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہر انسان کو حق ہے کہ وہ قول اور عمل سے اپنا دفاع کرے۔
یہ کام دوران اعتکاف بھی کیا جا سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دوران اعتکاف میں اپنا دفاع بایں الفاظ کیا:
جسے تم نے میرے ساتھ رات کے وقت دیکھا ہے وہ میری بیوی صفیہ ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم میرے متعلق بدگمانی کا شکار ہو لیکن تمہیں اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ شیطان، انسان کے رگ و ریشے میں خون کی طرح دوڑ جاتا ہے اور اسے علم بھی نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 355/4)
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بدگمانی اور شیطانی مکروفریب سے خود کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
خاص طور پر علماء حضرات کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے لوگ ان کے متعلق بدگمانی میں مبتلا ہو جائیں اگرچہ اس کام میں مخلص ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم سے فائدہ حاصل کرنا ختم ہو جائے گا۔
کوئی شخص بطور تجربہ بھی ایسا کام نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔
(عمدةالقاري: 282/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2039   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3281  
3281. حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ معتکف تھے تو میں ایک رات آپ سے ملاقات کے لیے آئی اور آپ سے باتیں کرتی رہی۔ پھر میں اٹھی اور اپنے گھر جانے لگی تو آپ بھی میرے ساتھ اُٹھے تاکہ مجھے گھر چھوڑ آئیں۔ ان کی رہائش اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھی۔ اس دوران میں دو انصاری مرد وہاں سے گزرے۔ جب انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اپنی جگہ ٹھہر جاؤ۔ یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ؓ ہے۔ انھوں نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ! سبحان اللہ (ہم ایسا ویسا گمان کرسکتے ہیں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا، مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برائی یا اور کوئی چیز ڈال دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3281]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ اپنی امت پر بہت مہربانی اور شفقت کرتے تھے اس لیے آپ نے وضاحت کردی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان ان کے دلوں میں کوئی ایسی ویسی بات ڈال دے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو کسی بھی ایسی حالت سے بچنا چاہیے کس سے شبہات پیدا ہوں اور اگر بظاہرایسا موقع بن جائے تو اس کی وضاحت کر دینی چاہیے رسول اللہ ﷺ نے یہی سوچ کر ان کے سامنے اصل معاملہ رکھ دیا اور انھیں غلط وسوسے سے بچا لیا۔

انسان کے جسم میں شیطان کا گردش کرنا حقیقت پر محمول ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرنے کی قوت دی ہے تاہم کچھ علماء کا خیال ہے کہ وہ کثرت وسوس کی بنا پر انسان کےساتھ لگا رہتاہے اور اس سے علیحدہ نہیں ہوتا۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ شیطانی وسوسہ اندازی سے ہمیں چوکس رہنا چاہیے وہ بڑے خفیہ اور لطیف انداز سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہےاس کی خفیہ سازش کو قرآن کریم نے آخری سورت میں بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3281   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6219  
6219. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ صفیہ بنت حبیی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرنے کے لیے آئیں جبکہ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد میں متعکف تھے۔ انہوں نے عشاء کے وقت تھوڑی دیر تک آپ ﷺ سے باتیں کیں۔ پھر واپس جانے کے لیے اٹھیں تو نبی ﷺ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تاکہ انہیں واپس چھوڑنے جائیں، جب وہ مسجد کے اس دروازے کے پاس پہنچیں جہاں نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام سلمہ ؓ کا گھر تھا تو ان دونوں کے پاس سے دو انصاری آدمی گزرے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ دیکھو! میری بیوی سیدہ صفیہ بن حیبی ہے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! سبحان اللہ۔ ان حضرات پر یہ بات بہت گراں گزری۔ آپ نے فرمایا: شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جس طرح رگوں میں خون گردش کرتا ہے، مجھے خطرہ محسوس ہوا مبادا تمہارے دلوں میں کوئی چیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6219]
حدیث حاشیہ:
(1)
دونوں انصاری بزرگوں نے تعجب کے وقت سبحان اللہ کہا۔
اگر ایسے موقع پر یہ کہنا درست نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع فرما دیتے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ متوقع غلط فہمی کو قبل از وقت دور کرنا سنت نبوی ہے۔
واللہ أعلم۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری صحابہ کے دلوں سے متوقع غلط فہمی کو دور فرمایا کہ یہ میری بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں، کوئی اجنبی عورت نہیں جس کے پاس میں رات کے وقت کھڑا ہوں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6219   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7171  
7171. سیدنا علی بن حسین سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس سیدنا صفیہ بنت حییی ؓ آئیں۔ جب وہ وآپس جانے لگیں تو آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ چلے۔ اس وقت دو انصاری آپ کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں بلا کر فرمایا: یہ صفیہ ہیں انہوں نے کہا: سبحان اللہ! (ہمیں بد گمانی کیسے ہوسکتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جیسے خون گردش کرتا ہے۔ اس حدیث کو شعیب، ابن مسافر، ابن ابی عتیق اور اسحاق بن یحیٰی نے امام زہری سے، انہوں نے علی بن حسین سے، انہوں نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7171]
حدیث حاشیہ:

حدیث سابق کے تحت بدگمانی سے بچنے کےضمن میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے کا حوالہ دیا گیا تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ مستقل طور پر مستند طریقے سے بیان کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری حضرات کے متعلق یہ اندیشہ محسوس کیا کہ شاید یہ کسی بدگمانی میں مبتلا ہوجائیں اور ان کے دلوں میں کوئی غلط بات بیٹھ جائے جس کی وجہ سے ان کی آخرت تباہ ہو جائے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے وضاحت کر دی کہ یہ عورت کوئی اجنبی نہیں بلکہ میری بیوی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔
جب انھوں نےاظہار تعجب کیا کہ یہ ہم آپ کے متعلق بدگمانی کیسے کر سکتے تھے توآپ نے فرمایا:
شیطان انسان کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے، اس سے ایسا وسوسہ دینا بعید نہیں۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تہمت کادورکرنا انتہائی ضروری ہے۔
جب حاکم کا اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بدگمانی کو دعوت دیتا ہے تو اسے دور کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ محض اپنے علم کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے گریز کیا جائے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ثبوت اور شہادتیں طلب کی جائیں۔
(فتح الباري: 201/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7171   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.