الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
The Book of As-Saum (The Fasting).
1. بَابُ وُجُوبِ صَوْمِ رَمَضَانَ:
1. باب: رمضان کے روزوں کی فرضیت کا بیان۔
(1) Chapter. Fasting is obligatory in (the month of) Ramadan.
حدیث نمبر: 1893
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، ان عراك بن مالك حدثه، ان عروة اخبره، عن عائشة رضي الله عنها،" ان قريشا كانت تصوم يوم عاشوراء في الجاهلية، ثم امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصيامه حتى فرض رمضان، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من شاء فليصمه، ومن شاء افطر".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنَّ عِرَاكَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عُرْوَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ قُرَيْشًا كَانَتْ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصِيَامِهِ حَتَّى فُرِضَ رَمَضَانُ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے اور ان سے عراک بن مالک نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ کا حکم دیا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے یوم عاشورہ کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

Narrated `Aisha: (The tribe of) Quraish used to fast on the day of Ashura' in the Pre-Islamic period, and then Allah's Apostle ordered (Muslims) to fast on it till the fasting in the month of Ramadan was prescribed; whereupon the Prophet said, "He who wants to fast (on 'Ashura') may fast, and he who does not want to fast may not fast."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 117


   صحيح البخاري3831عائشة بنت عبد اللهمن شاء صامه ومن شاء لا يصومه
   صحيح البخاري4504عائشة بنت عبد اللهرمضان الفريضة وترك عاشوراء من شاء صامه ومن شاء لم يصمه
   صحيح البخاري1893عائشة بنت عبد اللهمن شاء فليصمه ومن شاء أفطر
   صحيح البخاري2001عائشة بنت عبد اللهصيام يوم عاشوراء لما فرض رمضان كان من شاء صام ومن شاء أفطر
   صحيح البخاري2002عائشة بنت عبد اللهعاشوراء فمن شاء صامه ومن شاء تركه
   صحيح البخاري1592عائشة بنت عبد اللهمن شاء أن يصومه فليصمه من شاء أن يتركه فليتركه
   صحيح مسلم2637عائشة بنت عبد اللهمن شاء صامه ومن شاء تركه
   صحيح مسلم2640عائشة بنت عبد اللهقبل أن يفرض رمضان فلما فرض رمضان كان من شاء صام يوم عاشوراء ومن شاء أفطر
   صحيح مسلم2641عائشة بنت عبد اللهمن شاء فليصمه ومن شاء فليفطره
   جامع الترمذي753عائشة بنت عبد اللهأمر الناس بصيامه لما افترض رمضان كان رمضان هو الفريضة وترك عاشوراء من شاء صامه ومن شاء تركه
   سنن أبي داود2442عائشة بنت عبد اللهصامه وأمر بصيامه لما فرض رمضان كان هو الفريضة وترك عاشوراء من شاء صامه ومن شاء تركه
   مسندالحميدي202عائشة بنت عبد اللهكان يوم عاشوراء يوما يصام في الجاهلية قبل أن ينزل شهر رمضان، فلما نزل شهر رمضان فمن شاء صامه، ومن شاء لم يصمه
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1893 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1893  
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ دونوں احادیث رمضان کے روزوں کی فرضیت کے لیے واضح دلیل ہیں۔
ان میں صراحت ہے کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔
(عمدۃالقاري: 8/7) (2)
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہمارے لیے عاشوراء کا روزہ سنت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فرض تھا یا سنت؟ اس میں اختلاف ہے۔
روایت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ واجب تھا، پھر رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوا۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے، البتہ جن ایام میں انہیں روزہ رکھنے کی عادت تھی اگر ان دنوں میں عاشوراء آ جاتا تو روزہ رکھ لیتے۔
اس سے ایسے لگتا ہے کہ یہ روزہ متروک ہے لیکن ایسا نہیں کیونکہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صاف ظاہر ہے کہ عاشوراء کا روزہ منسوخ ہو جانے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے کے متعلق اختیار دے دیا گیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
اس روایت سے عاشوراء کے روزے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1893   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 753  
´یوم عاشوراء کا روزہ نہ رکھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 753]
اردو حاشہ: 1 ؎:
مؤلف نے حدیث پر حکم تیسرے فقرے میں لگایا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 753   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:202  
فائدہ:
یوم عاشورہ کا روزہ پہلے فرض تھا، لیکن جب رمضان فرض ہوگیا تب یوم عاشورہ کی فرضیت ختم ہوگئی۔ عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں۔ رمضان کے بعد افضل ترین روزے محرم کے قرار دیے گئے ہیں۔ (صحيح مسـلـم: 1131) اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسی علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی قوم کو فرعون سے اسی عاشوراء کے دن نجات دی تھی تو بنی اسرائیل اس خوشی میں بطور شکرانہ روزہ رکھتے تھے۔ (صحیح البخاری: 2004) یہودی صرف روزہ ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ خوشی و مسرت کا اظہار بھی کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اہل خیبر اس دن جشن مناتے اور اپنی عورتوں کو زیورات اور سامان زینت سے مزین کرتے۔ (صحیح مسلم: 1134) اب ہم نے نو محرم کا روزہ رکھنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا روزہ ضرور رکھوں گا۔ (صحیح مسلم: 1134)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 202   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2637  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تو آپﷺ نے خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس روزہ کے رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے مہینہ کے روزے فرض ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاہے اس کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2637]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زمانہ جاہلیت میں قریش عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور کعبہ کو غلاف بھی پہناتے تھے روزہ رکھنے کی تین وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔

ملت ابراہیمی میں دس کا روزہ تھا یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھا تھا۔

قریش نے جاہلیت کے دور میں کسی انتہائی قبیح گناہ کا ارتکاب کیا جس کو انھوں نے انتہائی ناگوار خیال کیا تو کسی نے انہیں بطور کفارہ روزہ رکھنے کا مشورہ دیا۔

وہ جاہلیت کے دور میں خشک سالی سے دوچار ہوئے اور اس کے ختم ہونے پر بطور شکرانہ روزہ رکھا چونکہ روزہ ایک پسندیدہ عمل تھا اس لیے آپﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے ہجرت مدینہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو روزہ رکھتے دیکھا تو ان سے اس کا سبب پوچھا:
انھوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام کی سرکردگی میں بنو اسرائیل فرعونیوں کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کی اقتدا میں روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
احناف کے نزدیک وجوب کے لیے تھا اور باقی آئمہ کے نزدیک استحباب تاکیدی کے لیے اور اب بالاتفاق اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2637   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1592  
1592. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ لوگ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس روز کعبہ شریف کو غلاف پہنایاجاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1592]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس میں عاشوراء کے دن کعبہ پر پردہ ڈالنے کا ذکر ہے جس سے کعبہ شریف کی عظمت ثابت ہوئی جو باب کا مقصود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1592   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4504  
4504. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دور جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور نبی ﷺ بھی (ملتِ ابراہیم کی پیروی میں) اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی اس دن کے روزے کو برقرار رکھا بلکہ اپنے صحابہ کو اس دن روزہ رکھنے کا پابند کیا۔ پھر جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کی فرضیت ترک کر دی گئی، پھر جس کا دل چاہتا روزہ رکھتا اور جس کا جی نہ چاہتا روزہ نہ رکھتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4504]
حدیث حاشیہ:
یوم عاشوراء کے روزہ کی فضیلت اور استحباب اب بھی باقی ہے۔
پہلے اس کا وجوب تھا جو رمضان کے روزوں کی فرضیت سے منسوخ ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4504   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1592  
1592. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ لوگ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس روز کعبہ شریف کو غلاف پہنایاجاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اب جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1592]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بیت اللہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے کہ عاشوراء کے دن اسے غلاف پہنایا جاتا تھا۔
(2)
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یمن کے حیری بادشاہ اسعد تبع نے بیت اللہ کو غلاف پہنایا تھا۔
ہر دور میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دور جاہلیت میں بھی بیت اللہ کی تعظیم کے پیش نظر اسے غلاف پہنایا جاتا تھا، نیز غلاف پہنانے کا اہتمام محرم کی دسویں تاریخ، یعنی عاشوراء کے دن کیا جاتا تھا۔
امام ابو جعفر باقر کے زمانے تک یہ روایت قائم رہی، اس کے بعد ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو غلاف پہنانے کا آغاز ہوا جو آج تک قائم ہے۔
حکومت سعودیہ نے ایک مستقل محکمہ غلاف کعبہ کے لیے قائم کیا ہے جو سارا سال اس کی تیاری میں لگا رہتا ہے۔
اس پر لاکھوں ریال اخراجات اٹھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادیر قائم رکھے تاکہ بیت اللہ کی حرمت و عظمت کو برقرار رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہو۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1592   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2002  
2002. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے فرمایاکہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ بھی نبوت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو خود بھی روزہ رکھا اوردوسروں کوبھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیالیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا۔ اب جو چاہے اس دن روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2002]
حدیث حاشیہ:
(1)
عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں۔
محرم الحرام کا مہینہ دین اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
اسے ان چار مہینوں میں شامل کیا گیا ہے جن کی عزت و توقیر کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ادب و احترام والے چار مہینے حسب ذیل ہیں:
٭ ذوالقعدہ ٭ ذوالحجہ ٭ محرم ٭ رجب۔
ماہ محرم کی عزت اس لیے نہیں کہ اس میں سیدنا حضرت حسین ؓ کی شہادت ہوئی ہے بلکہ قرآنی تصریح کے مطابق زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت ہی سے یہ مہینہ حرمت والا ہے لیکن بعض لوگ محرم کا چاند نظر آتے ہی اس کا پہلا عشرہ واہی تباہی کی نذر کر دیتے ہیں اور اس مہینے کو صرف کربلا کی قصہ گوئی کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ماہ محرم کا تقدس شاید سانحہ کربلا کی وجہ سے ہے، حالانکہ اس کی حرمت و عظمت کسی واقعے یا سانحے کی مرہون منت نہیں ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:
رمضان کے بعد کون سا روزہ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے ماہ محرم کا۔
(مسندأحمد: 342/2)
اس سے معلوم ہوا کہ ماہ محرم کے روزے بہت فضیلت والے ہیں، لہذا اس میں کثرت سے روزے رکھے جائیں، البتہ عاشوراء کا روزہ ان میں سب سے زیادہ مؤکد ہے جسے ثابت کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث پیش کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے آپ نے یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا، بعد ازاں حکم وجوب ختم کر دیا جسے حدیث میں ترک سے تعبیر کیا گیا ہے، تاہم اس کا استحباب برقرار رکھا گیا۔
(2)
عاشوراء کی تاریخی حیثیت بہت قدیم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور آپ کی قوم کو فرعون سے اسی عاشوراء کے دن نجات دی تھی تو بنی اسرائیل اس خوشی میں بطور شکرانہ روزہ رکھتے تھے جیسا کہ آئندہ بخاری کی حدیث میں بیان ہو گا۔
یہودی صرف روزہ ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ خوشی و مسرت کا اظہار بھی کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اہل خیبر اس دن جشن مناتے اور اپنی عورتوں کو زیورات اور سامان زینت سے مزین کرتے۔
(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2661۔
2660(1131)
اس دن اظہار مسرت کے لیے عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ شریک ہوتے اور اس دن کی عظمت کا اظہار کرتے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ اس دن کو یہودی اور عیسائی بڑا عظیم خیال کرتے تھے۔
(حوالہ نہیں لکھا ہوا)
ایام جاہلیت میں قریش بھی اس دن کو عظیم سمجھتے تھے اور اس عظمت کے پیش نظر کعبہ شریف کو غلاف پہناتے اور اس دن کا روزہ رکھتے تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا جو ان کے دل میں کانٹے کی حیثیت اختیار کر گیا، انہیں بتایا گیا کہ عاشوراء کی تعظیم اور اس دن کا روزہ رکھنے سے اس گناہ کی تلافی ہو سکتی ہے، (فتح الباري: 312/4)
چنانچہ حدیث عائشہ میں بیان ہوا ہے کہ قریش دور جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی بعثت سے قبل اس دن کا روزہ رکھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2002   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3831  
3831. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ عاشوراء کے روز زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی عاشوراء کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو جو چاہتا عاشوراء کا روزہ رکھتا، جو چاہتا نہ رکھتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3831]
حدیث حاشیہ:
دور جاہلیت میں جنگل کا قانون ہونے کے باوجود کچھ اچھے کام بھی ہوتے تھے جنھیں اسلام نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان کی تحسین فرمائی ہے انھی میں سے ایک عاشوراء کے دن کا روزہ ہے عاشوراء دسویں محرم کو کہتے ہیں دور جاہلیت میں اسے بڑے احترام سے دیکھا جاتا تھا۔
قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔
کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں زبردست قحط پڑا جب وہ ختم ہوا تو انھیں کسی نے بتایا کہ تم شکر کے طور پر عاشوراء کا روزہ رکھو، چنانچہ انھوں نے اس دن کا روزہ رکھنا شروع کردیا جسے اسلام نے بھی برقرار رکھا۔
اس کی فضیلت اس قدر ہے کہ اس کے اہتمام سے ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
اسلام نے معمولی سی ترمیم کی ہے کہ عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یعنی نو تاریخ کا بھی روزہ رکھا جائے تاکہ مذہبی شعار میں اہل کتاب کی مخالفت ہو جائے۔
(فتح الباري: 188/7)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3831   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4504  
4504. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: دور جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور نبی ﷺ بھی (ملتِ ابراہیم کی پیروی میں) اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو بھی اس دن کے روزے کو برقرار رکھا بلکہ اپنے صحابہ کو اس دن روزہ رکھنے کا پابند کیا۔ پھر جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو رمضان کے روزے فرض ہو گئے اور عاشوراء کی فرضیت ترک کر دی گئی، پھر جس کا دل چاہتا روزہ رکھتا اور جس کا جی نہ چاہتا روزہ نہ رکھتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4504]
حدیث حاشیہ:

عنوان اور مذکورہ احادیث میں مطابقت اس طرح ہے کہ ان تمام احادیث میں رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا ذکر ہے، نیز عاشوراء کا روزہ پہلے فرض تھا، اب اس کا استحباب باقی ہے۔
ایک روایت میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بیان ان الفاظ میں مروی ہے کہ ہم پہلے عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور جب رمضان کا حکم نازل ہوا تو ہمیں عاشوراء کے متعلق نہ حکم دیا گیا اور نہ اس سے منع کیا گیا، البتہ ہم اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
(فتح الباري: 224/8)

امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں تھے، رمضان کے روزوں کی فرضیت صرف اس امت کے لیے ہے۔
اگررمضان کے روزے پہلی امتوں پر فرض ہوتے تو آپ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کے بجائے رمضان کے روزے رکھتے۔
(فتح الباري: 224/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4504   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.