الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: مدینہ کے فضائل کا بیان
The Book About The Virtues Or Al-Madina.
1. بَابُ حَرَمِ الْمَدِينَةِ:
1. باب: مدینہ کے حرم کا بیان۔
(1) Chapter. Haram (sanctuary) of Al-Madina.
حدیث نمبر: 1868
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن ابي التياح، عن انس رضي الله عنه: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، وامر ببناء المسجد، فقال: يا بني النجار، ثامنوني، فقالوا: لا نطلب ثمنه إلا إلى الله،" فامر بقبور المشركين فنبشت، ثم بالخرب فسويت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلة المسجد".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَأَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا بَنِي النَّجَّارِ، ثَامِنُونِي، فَقَالُوا: لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ،" فَأَمَرَ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ، ثُمَّ بِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ، وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ، فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ (ہجرت کر کے) تشریف لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنو نجار تم (اپنی اس زمین کی) مجھ سے قیمت لے لو لیکن انہوں نے عرض کی کہ ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کے متعلق فرمایا اور وہ اکھاڑی دی گئیں، ویرانہ کے متعلق حکم دیا اور وہ برابر کر دیا گیا، کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے اور وہ درخت قبلہ کی طرف بچھا دیئے گئے۔

Narrated Anas: The Prophet came to Medina and ordered a mosque to be built and said, "O Bani Najjar! Suggest to me the price (of your land)." They said, "We do not want its price except from Allah" (i.e. they wished for a reward from Allah for giving up their land freely). So, the Prophet ordered the graves of the pagans to be dug out and the land to be leveled, and the date-palm trees to be cut down. The cut datepalms were fixed in the direction of the Qibla of the mosque.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 30, Number 92


   صحيح البخاري2779أنس بن مالكثامنوني بحائطكم قالوا لا نطلب ثمنه إلا إلى الله
   صحيح البخاري2106أنس بن مالكثامنوني بحائطكم وفيه خرب ونخل
   صحيح البخاري1868أنس بن مالكثامنوني فقالوا لا نطلب ثمنه إلا إلى الله فأمر بقبور المشركين فنبشت ثم بالخرب فسويت وبالنخل فقطع فصفوا النخل قبلة المسجد
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1868 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1868  
حدیث حاشیہ:
اس سے بعض حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ اگر مدینہ حرم ہوتا تو وہاں کے درخت آپ کیوں کٹواتے؟ ان کا جواب یہ ہے کہ یہ فعل ضرورت سے واقع ہوا یعنی مسجد نبوی بنانے کے لیے اورآنحضرت ﷺ نے جو کیا بحکم الٰہی کیا۔
آپ ﷺ نے تو مکہ میں بھی قتال کیا، کیا حنفیہ بھی اس کو کسی اور کے لیے جائز کہیں گے۔
مسلم کی روایت میں ہے آنحضرت ﷺ نے مدینہ کے ارد گرد بارہ میل تک حرم کی حد قرار دی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1868   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1868  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے حرم ہونے میں کوئی شبہ نہیں، البتہ جہاں تک کھجوریں کاٹنے کا معاملہ ہے تو وہ ایک ضرورت کے پیش نظر تھا، یعنی اس سے مسجد نبوی کی تیاری مقصود تھی اور یہ بھی اللہ کے اذن سے ایسا ہوا جیسا کہ حرم مکہ میں ضرورت کے پیش نظر قتال کی اجازت دی گئی تھی، نیز حرم کے ایسے درختوں کو کاٹنا منع ہے جو وہاں خود بخود اُگے ہوں۔
جن درختوں کو خود کاشت کیا گیا ہو جیسا کہ باغات میں کھجوروں کے درخت لگائے جاتے ہیں تو ایسے درختوں کو کاٹنا منع نہیں۔
جن کھجوروں کو کاٹا گیا وہ بنو نجار کی خود کاشتہ تھیں۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ کھجوریں کاٹنے کی ضرورت ہجرت کے فورا بعد پیش آئی جبکہ مدینہ کو حرم قرار دینے کا واقعہ غزوۂ خیبر سے واپسی کا ہے، اس لیے بھی یہ واقعہ ان لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا جو اس کے پیش نظر حرم مدینہ کو تسلیم نہیں کرتے۔
(فتح الباري: 108/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1868   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2106  
2106. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے بنو نجار! تم اپنے باغ کی قیمت بتاؤ۔ "اس باغ کا کچھ حصہ ویران اور کچھ نخلستان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2106]
حدیث حاشیہ:
یعنی مال کی قیمت پہلے وہی بیان کرے، پھر خریدار جو چاہے کہے، اس کا مطلب نہیں کہ ایسا کرنا واجب ہے، کیوں کہ اوپر جابر کی حدیث میں گزرا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2106   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2106  
2106. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے بنو نجار! تم اپنے باغ کی قیمت بتاؤ۔ "اس باغ کا کچھ حصہ ویران اور کچھ نخلستان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2106]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ سامان کے مالک کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے سامان کی قیمت بتائے اور اس کی مقدار مقرر کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار سے پوچھا:
تم اپنے باغ کی قیمت سے مجھے آگاہ کرو،اس لیے چیز کا مالک یا اس کا وکیل قیمت طے کرے گا اس کے بعد خریدار جوڑ توڑ کرکے اسے نتیجے تک پہنچائے گا۔
لیکن ایسا کرنا ضروری نہیں کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اونٹ خریدا تو اس کی قیمت بھی از خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے طے کی تھی،آپ نے فرمایا:
\" مجھے ایک اوقیہ چاندی کے عوض فروخت کرو۔
\"(صحیح البخاری،البیوع،حدیث: 2097) (2)
واضح رہے کہ حدیث میں ذکر کردہ وہی باغ ہے جہاں مسجد نبوی تعمیر کی گئی ہے۔
(فتح الباری: 4/412)
w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2106   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2779  
2779. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اے بنو نجار!تم اپنا باغ میرے ہاتھ فروخت کردو۔ تو انھوں نے عرض کیا: ہم اس کی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2779]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وقف کے لیے خاص الفاظ کا ادا کرنا ضروری نہیں بلکہ جس طرح بھی یہ مقصد حاصل ہو جائے کافی ہے، اس کے لیے لفظ وقف استعمال کرنا لازمی نہیں۔
دراصل وقف کے الفاظ کی دو قسمیں ہیں:
٭ صريح:
اس کے لیے وقف، حَبَس اور اَسبِل کے الفاظ ہیں۔
٭ كنايه:
جس سے بھی مقصود حاصل ہو جائے، بلکہ اس میں عرف کا بھی اعتبار ہوتا ہے۔
بہرحال حدیث میں مذکور الفاظ سے بھی وقف ہو جاتا ہے۔
واللہ أعلم۔
(2)
وقف کے سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ مساجد میں وقف شدہ مال اگر لوازمات نماز کے لیے ہو تو باعث اجروثواب ہے، اس سے کسی مسلمان کو ذاتی غرض پوری کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر محض تزئین اور آرائش کے لیے ہے تو اسے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات میں صرف کر دینا چاہیے۔
اسی طرح قبروں کو پختہ کرنے یا ان پر مساجد بنانے، چادریں اور پھول چڑھانے کے لیے کوئی وقف کیا تو یہ بھی جائز نہیں، نیز کسی ایسے کام کے لیے وقف جو لوگوں کے عقائد خراب کرنے کا باعث ہو ایسے اوقاف بھی حرام ہیں۔
اللہ تعالی ان سے محفوظ رکھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2779   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.