(مرفوع) وعن عروة، ان عائشة رضي الله عنها اخبرته، عن النبي صلى الله عليه وسلم في تمتعه بالعمرة إلى الحج، فتمتع الناس معه بمثل الذي اخبرني سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) وَعَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَمَتُّعِهِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَهُ بِمِثْلِ الَّذِي أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عروہ سے روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج اور عمرہ ایک ساتھ کرنے کی خبر دی کہ اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے مجھے سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی تھی۔
Narrated 'Urwa: " 'Aishah informed me about the Hajj and 'Umra (together) of the Prophet (saws) and so did the people who were with him (during the Hajj and 'Umra) and narration similar to the narration of the Ibn 'Umar (previous hadith)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 750
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1692
حدیث حاشیہ: نووی ؒ نے کہا کہ تمتع سے یہاں قران مراد ہے، ہوا یہ کہ پہلے آپ ﷺ نے صر ف حج کا احرام باندھا تھا پھر عمرہ کو اس میں شریک کرلیا اور قران کو بھی تمتع کہتے ہیں۔ (وحیدی) اسی حدیث میں آنحضرت ﷺ کے خانہ کعبہ کا طواف کرنے میں رمل کا ذکر بھی آیا ہے۔ یعنی اکڑ کر مونڈھوں کو ہلاتے ہوئے چلنا۔ یہ طواف کے پہلے تین پھیروں میں کیا اور باقی چار میں معمولی چال سے چلے، یہ اس واسطے کیا کہ مکہ کے مشرکوں نے مسلمانوں کی نسبت یہ خیال کیا تھا کہ مدینہ کے بخار سے وہ ناتواں ہو گئے ہیں تو پہلی بار یہ فعل ان کا خیال غلط کرنے کے لیے کیا گیا تھا، پھر ہمیشہ یہی سنت قائم رہی۔ (وحیدی) حج میں ایسے بہت سے تاریخی یادگاری امو رہیں جو پچھلے بزرگوں کی یادگاریں ہیں اور اسی لیے ان کو ارکان حج سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں، رمل کا عمل بھی ایسا ہی تاریخی عمل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1692
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1692
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ قربانی کے متعلق مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے "حِل" (حدود حرم کے باہر) سے اپنے ساتھ لائے۔ اگر حرم سے خریدے تو حج کرنے کے لیے جب عرفہ جائے تو بہتر ہے کہ اسے ساتھ لے جائے جبکہ کچھ حضرات کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ تو اس لیے "حِل" سے قربانی ساتھ لائے تھے کہ آپ کا گھر حدود حرم سے باہر تھا، اس لیے حل سے قربانی ساتھ لے کر جانا مسنون عمل نہیں۔ بہرحال میقات اور بعید مقامات سے قربانی ساتھ لے کر جانا مسنون عمل ہے جسے آج اکثر لوگوں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ (فتح الباري: 682/3)(2) اس مقام پر لفظ تمتع سے مراد حج قران ہے کہ انہوں نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرے کا فائدہ حاصل کر لیا۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے پہلے حج کا احرام باندھا تھا، پھر عمرے کو اس میں شریک کر لیا۔ لغت اور معنی کے اعتبار سے قارن پر متمتع کا اطلاق جائز ہے کیونکہ اس میں ایک میقات، ایک احرام اور ایک جیسے اعمال حج سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ حج تمتع میں عمرے کے بعد احرام کھول کر بیوی سے تمتع کیا جا سکتا ہے اور حج قران میں عمرے کو حج کے ساتھ ایک ہی احرام میں جمع کرنے کا فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسری احادیث کے پیش نظر یہ تاویل انتہائی ناگزیر ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1692