ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جبیر بن مطعم نے، ان سے ان کے باپ نے کہ میں اپنا ایک اونٹ تلاش کر رہا تھا (دوسری سند) اور ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمر بن دینار نے، انہوں نے محمد بن جبیر سے سنا کہ ان کے والد جبیر بن مطعم نے بیان کیا کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا تھا تو میں عرفات میں اس کو تلاش کرنے گیا، یہ دن عرفات کا تھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے میدان میں کھڑے ہیں۔ میری زبان سے نکلا قسم اللہ کی! یہ تو قریش ہیں پھر یہ یہاں کیوں ہیں۔
Narrated Muhammad bin Jubair bin Mut`im: My father said, "(Before Islam) I was looking for my camel .." The same narration is told by a different sub-narrator. Jubair bin Mut`im said, "My camel was lost and I went out in search of it on the day of `Arafat, and I saw the Prophet standing in `Arafat. I said to myself: By Allah he is from the Hums (literally: strictly religious, Quraish were called so, as they used to say, 'We are the people of Allah we shall not go out of the sanctuary). What has brought him here?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 725
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1664
حدیث حاشیہ: جاہلیت میں دوسرے تمام لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے، لیکن قریش کہتے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اہل و عیال ہیں، اس لیے ہم وقوف کے لیے حرم سے باہر نہیں نکلیں گے۔ آنحضرت ﷺ بھی قریش میں سے تھے مگر آپ اور تمام مسلمان اور غیر قریش کے امتیاز کے بغیر عرفات ہی میں وقوف پذیر ہوئے۔ عرفات حرم سے باہر ہے اس لیے راوی کو حیرت ہوئی کہ ایک قریش اور اس دن عرفات میں۔ لفظ حمس حماست سے مشتق ہے۔ قریش کے لوگوں کو حمس اس وجہ سے کہتے تھے کہ وہ اپنے دین میں حماست یعنی سختی رکھتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1664
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1664
حدیث حاشیہ: (1) حمس، حماست سے ہے جس کے معنی سختی کے ہیں۔ قریش کو حمس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے دین میں سختی سے کام لیتے تھے۔ اس سختی کی وجہ سے وہ حدود حرم سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ حضرت جبیر بن مطعم ؓ کو اس لیے تعجب ہوا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دوران حج میں حدود حرم سے باہر میدان عرفات میں وقوف کرتے دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ کا مقصد قریش کی اس بدعت کو اپنے عمل سے توڑنا تھا۔ (2) حضرت جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں کہ قریش مزدلفہ سے واپس ہو جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم حمس ہونے کی وجہ سے حدود حرم سے باہر نہیں نکل سکتے، نیز انہوں نے حج کے موقع پر وقوف عرفہ ترک کر دیا تھا جبکہ میں نے دور جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کے ساتھ میدان عرفات میں ایک سواری پر وقوف کرتے دیکھا، پھر وہ لوگوں کے ساتھ مزدلفہ آئے، وہاں وقوف فرمایا اور لوگوں کے ساتھ ہی وہاں سے واپس ہوئے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی توفیق اور اس کے حکم سے ایسا کرتے تھے۔ (فتح الباري: 652/3)(3) ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بہترین دعا یوم عرفہ کی ہے۔ اور سب سے بہترین کلمات جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء ؑ نے کہے ہیں وہ یہ ہیں: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو علی كل شئي قدير) “(جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3585)(4) واضح رہے کہ عرفہ کے دن نماز ظہر و عصر کے بعد جبل رحمت کے قریب کھڑے ہونا اور دعائیں مانگنا مستحب ہے۔ علاوہ ازیں میدان عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں تو یہاں کھڑا ہوا ہوں لیکن میدان عرفہ سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔ “(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2952(1218)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1664