وقوله تعالى: إنما امرت ان اعبد رب هذه البلدة الذي حرمها وله كل شيء وامرت ان اكون من المسلمين سورة النمل آية 91 , وقوله جل ذكره: اولم نمكن لهم حرما آمنا يجبى إليه ثمرات كل شيء رزقا من لدنا ولكن اكثرهم لا يعلمون سورة القصص آية 57.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ سورة النمل آية 91 , وَقَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لا يَعْلَمُونَ سورة القصص آية 57.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النمل میں) فرمایا ”مجھ کو تو یہی حکم ہے کہ عبادت کروں اس شہر کے رب کی جس نے اس کو حرمت والا بنایا اور ہر چیز اسی کے قبضہ و قدرت میں ہے اور مجھ کو حکم ہے تابعدار بن کر رہنے کا“ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ قصص میں فرمایا ”کیا ہم نے ان کو جگہ نہیں دی حرم میں جہاں امن ہے ان کے لیے اور کھنچے چلے آتے ہیں اس کی طرف، میوے ہر قسم کے جو روزی ہے ہماری طرف سے لیکن بہت سے ان میں نہیں جانتے۔“
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا جرير بن عبد الحميد، عن منصور، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة:" إن هذا البلد حرمه الله لا يعضد شوكه، ولا ينفر صيده، ولا يلتقط لقطته إلا من عرفها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قال: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ:" إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا".
ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور سے بیان کیا ان سے مجاہد نے، ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ پر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر (مکہ) کو حرمت والا بنایا ہے (یعنی عزت دی ہے) پس اس کے (درختوں کے) کانٹے تک بھی نہیں کاٹے جا سکتے یہاں کے شکار بھی نہیں ہنکائے جا سکتے۔ اور ان کے علاوہ جو اعلان کر کے (مالک تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہوں) کوئی شخص یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہیں اٹھا سکتا ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: On the Day of the Conquest of Mecca, Allah's Apostle said, "Allah has made this town a sanctuary. Its thorny bushes should not be cut, its game should not be chased, and its fallen things should not be picked up except by one who would announce it publicly."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 657
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1587
حدیث حاشیہ: مسند احمد وغیرہ میں عیاش بن ابی ربیعہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: «لا تزال هذه الأمة بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها، فإذا تركوها وضيعوها هلكوا» یعنی یہ امت ہمیشہ خیرو بھلائی کے ساتھ رہے گی جب تک یہ پورے طورپر کعبہ کی تعظیم کرتے رہیں گے اور جب اس کو ضائع کردیں گے، ہلاک ہوجائیں گے۔ معلوم ہوا کہ کعبہ شریف اور اس کے اطراف ساری ارض حرم بلکہ سارا شہرامت مسلمہ کے لیے انتہائی معزز ومؤقرمقامات ہیں۔ ان کے بارے میں جو بھی تعظیم وتکریم سے متعلق ہدایات کتاب وسنت میں دی گئی ہیں، ان کو ہمہ وقت ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حرمت کعبہ کے ساتھ ملت اسلامیہ کی حیات وابستہ ہے۔ باب کے تحت جو آیات قرآنی حضرت امام بخاری ؒ لائے ہیں ان میں بہت سے حقائق کا بیان ہے خاص طورپر اس کا کہ اللہ پاک نے شہر مکہ میں یہ برکت رکھی ہے کہ یہاں چاروں طرف سے ہر قسم کے میوے پھل اناج غلے کھنچے چلے آتے ہیں۔ دنیا ہر ایک پھل وہاں کے بازاروں میں دستیاب ہوجاتا ہے۔ خاص طورپر آج کے زمانہ میں حکومت سعودیہ خلدها اللہ تعالیٰ نے اس مقدس شہر کو جو ترقی دی ہے اور اس کی تعمیر جدید جن جن خطوط پر کی ہے اور کررہی ہے وہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے حد درجہ قابل تشکر ہیں۔ أیدهم اللہ بنصرہ العزیز۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1587
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1587
حدیث حاشیہ: (1) اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو اس کی عزت و حرمت کی وجہ سے قابل احترام ٹھہرایا ہے۔ مکہ اور حرم مکہ کے ایک جیسے احکام ہیں۔ حرم مکی مدینہ کی طرف تین میل، یمن و عراق کی طرف سات میل اور جدہ کی طرف دس میل ہے۔ اس حدیث کے دیگر احکام و مسائل ہم حدیث: 1834 کے تحت بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ۔ (2) بہرحال اس حدیث سے حرم مکی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اسی حرم کی فضیلت کا تقاضا ہے کہ جس نے بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرنا ہو وہ فقیرانہ لباس میں آئے اور اس شاہی دربار میں حاضری دے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعے سے اسے حرم قرار دیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1587