ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ولید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن ابی طلحہ کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تحنیک کر دیں۔ (یعنی اپنے منہ سے کوئی چیز چبا کر ان کے منہ میں ڈال دیں) میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں داغ لگانے کا آلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگا رہے تھے۔
Narrated Anas bin Malik: I took `Abdullah bin Abu Talha to Allah's Apostle to perform Tahnik for him. (Tahnik was a custom among the Muslims that whenever a child was born they used to take it to the Prophet who would chew a piece of date and put a part of its juice in the child's mouth). I saw the Prophet and he had an instrument for branding in his hands and was branding the camels of Zakat.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 578
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1502
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ جانور کو ضرورت سے داغ دینا درست ہے اور رد ہوا حنفیہ کا جنہوں نے داغ دینا مکروہ اور اس کو مثلہ سمجھا ہے۔ (وحیدی) اور بچوں کے لیے تحنیک بھی سنت ہے کہ کھجور وغیرہ کوئی چیز کسی نیک آدمی کے منہ سے کچلواکر بچے کے منہ میں ڈالی جائے تاکہ اس کو بھی نیک فطرت حاصل ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1502
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1502
حدیث حاشیہ: (1) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بلاوجہ حیوان کو تکلیف دینے اور اس کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن کسی جانور کو کسی ضرورت کے پیش نظرداغ دینا درست ہے۔ یہ ایک استثنائی صورت ہے، انہیں داغ دینے کا فائدہ یہ ہے کہ انہیں دوسرے جانوروں سے شناخت کیا جا سکے، نیز اگر کوئی چوری کرے یا ہانک کر لے جائے تو انہیں واپس لینے میں آسانی ہو۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نشان زدہ جانور اگر فروخت ہو رہا ہو تو صدقہ دینے والے کو پتہ چل جائے تاکہ اسے خرید کر صدقہ واپس لینے کا مرتکب نہ ہو۔ (فتح الباري: 462/3)(2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بچوں کو گھٹی دینا مسنون ہے، حصول برکت تو صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے، اس لیے کوئی شخص بھی بچے کو گھٹی دے سکتا ہے، تاہم تفاولا کسی نیک آدمی سے گھٹی دلوانے میں کوئی حرج نہیں، البتہ اس میں تکلف سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے متعدد طبی فوائد بھی ہیں اور بازار سے گھٹی خرید کر استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1502