الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
50. بَابُ الاِسْتِعْفَافِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ:
50. باب: سوال سے بچنے کا بیان۔
(50) Chapter. To abstain from begging.
حدیث نمبر: 1472
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، عن عروة بن الزبير وسعيد بن المسيب، ان حكيم بن حزام رضي الله عنه قال:" سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم سالته فاعطاني , ثم قال: يا حكيم إن هذا المال خضرة حلوة، فمن اخذه بسخاوة نفس بورك له فيه، ومن اخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، كالذي ياكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى، قال حكيم: فقلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق لا ارزا احدا بعدك شيئا حتى افارق الدنيا، فكان ابو بكر رضي الله عنه يدعو حكيما إلى العطاء فيابى ان يقبله منه، ثم إن عمر رضي الله عنه دعاه ليعطيه فابى ان يقبل منه شيئا، فقال عمر: إني اشهدكم يا معشر المسلمين على حكيم، اني اعرض عليه حقه من هذا الفيء فيابى ان ياخذه، فلم يرزا حكيم احدا من الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توفي".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:" سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي , ثُمَّ قَالَ: يَا حَكِيمُ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ، أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ".
ہم سے عبد ان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب نے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کر لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہو گی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہو گا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (یاد رکھو) اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہو جاؤں۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کر دیتے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمانو! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ غرض حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پا گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ مال فے یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لیا۔

Narrated `Urwa bin Az-Zubair and Sa`id bin Al-Musaiyab: Hakim bin Hizam said, "(Once) I asked Allah's Apostle (for something) and he gave it to me. Again I asked and he gave (it to me). Again I asked and he gave (it to me). And then he said, "O Hakim! This property is like a sweet fresh fruit; whoever takes it without greediness, he is blessed in it, and whoever takes it with greediness, he is not blessed in it, and he is like a person who eats but is never satisfied; and the upper (giving) hand is better than the lower (receiving) hand." Hakim added, "I said to Allah's Apostle , 'By Him (Allah) Who sent you with the Truth, I shall never accept anything from anybody after you, till I leave this world.' " Then Abu Bakr (during his caliphate) called Hakim to give him his share from the war booty (like the other companions of the Prophet ), he refused to accept anything. Then `Umar (during his caliphate) called him to give him his share but he refused. On that `Umar said, "O Muslims! I would like you to witness that I offered Hakim his share from this booty and he refused to take it." So Hakim never took anything from anybody after the Prophet till he died.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 551


   صحيح البخاري3143حكيم بن حزامالمال خضر حلو من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   صحيح البخاري2750حكيم بن حزامالمال خضر حلو من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   صحيح البخاري6441حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بطيب نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   صحيح البخاري1472حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   صحيح مسلم2387حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بطيب نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   سنن النسائى الصغرى2604حكيم بن حزامالمال حلوة من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   سنن النسائى الصغرى2603حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف النفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   سنن النسائى الصغرى2602حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بطيب نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   سنن النسائى الصغرى2532حكيم بن حزامالمال خضرة حلوة من أخذه بطيب نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1472 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1472  
حدیث حاشیہ:
حکیم بن حزام ؓ کی کنیت ابوخالد قریشی اسدی ہے۔
یہ حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بھتیجے ہیں۔
واقعہ فیل سے تیرہ سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے۔
یہ قریش کے معزز ترین لوگوں میں سے ہیں۔
جاہلیت اور اسلام ہر دو زمانوں میں بڑی عزت ومنزلت کے مالک رہے۔
فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔
64ھ میں اپنے مکان کے اندر مدینہ میں وفات پائی۔
ان کی عمر ایک سوبیس سال کی ہوئی۔
ساٹھ سال عہد جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال زمانہ اسلام میں زندگی پائی۔
بڑے زیرک اور فاضل متقی صحابہ میں سے تھے زمانہ جاہلیت میں سوغلاموں کو آزاد کیا۔
اور سو اونٹ سواری کے لیے بخشے۔
وفات نبوی کے بعد یہ مدت تک زندہ رہے یہاں تک کہ معاویہ ؓ کے عہد میں بھی دس سال کی زندگی پائی۔
مگر کبھی ایک پیسہ بھی انہوں نے کسی سے نہیں لیا۔
جو بہت بڑے درجے کی بات ہے۔
اس حدیث میں حکیم انسانیت رسول کریم ﷺ نے قانع اور حریص کی مثال بیان فرمائی کہ جو بھی کوئی دنیاوی دولت کے سلسلہ میں قناعت سے کام لے گا اور حرص اور لالچ کی بیماری سے بچے گا اس کے لیے برکتوں کے دروازے کھلیں گے اور تھوڑا مال بھی اسکے لیے کافی ہوسکے گا۔
اس کی زندگی بڑے ہی اطمینان اور سکون کی زندگی ہوگی۔
اور جو شخص حرص کی بیماری اور لالچ کے بخار میں مبتلا ہوگا اس کا پیٹ بھر ہی نہیں سکتا خواہ اس کو ساری دنیا کی دولت حاصل ہوجائے وہ پھر بھی اسی چکر میں رہے گا کہ کسی نہ کسی طرح سے اور زیادہ مال حاصل کیا جائے۔
ایسے طماع لوگ نہ اللہ کے نام پر خرچ کرنا جانتے ہیں نہ مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
نہ کشادگی کے ساتھ اپنے اور اپنے اہل وعیال ہی پر خرچ کرتے ہیں۔
اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بہت ہی بھیانک تصویر نظرآتی ہے۔
فخر موجودات ﷺ نے ان ہی حقائق کو اس حدیث مقدس میں بیان فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1472   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1472  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے بغیر کسی دوسرے سے سوال کرنا حرام ہے۔
محنت و مزدوری پر قدرت رکھنے والے کے لیے یہی حکم ہے، البتہ بعض حضرات نے تین شرائط کے ساتھ کچھ گنجائش پیدا کی ہے:
٭ اصرار نہ کرے۔
٭ اپنی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے۔
٭ اور جس سے سوال کرے اسے تکلیف نہ دے۔
اگر یہ شرائط نہ ہوں تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے، نیز اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے صابر اور حریص کی جزا بیان فرمائی ہے کہ جو بھی دنیوی دولت کے سلسلے میں قناعت سے کام لے گا اور حرص و لالچ کی بیماری سے خود کو بچائے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ برکتوں کے دروازے کھول دے گا اور تھوڑا مال بھی اس کے لیے کافی ہو سکے گا اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور سکون سے گزرے گی۔
اس کے برعکس جو شخص حرص اور لالچ کا شکار ہو گا اس کا پیٹ کسی صورت نہیں بھرے گا، خواہ اسے دنیا کی تمام دولت مل جائے۔
ایسے لوگ نہ تو اللہ کے نام پر کچھ دیتے ہیں اور نہ اپنی دولت سے مخلوق ہی کو فائدہ پہنچاتے ہیں بلکہ اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتے۔
(2)
موجودہ دور میں اگر سرمایہ داروں کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بہت ہی بھیانک تصویر نظر آتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے دنیا کے مال کو خوشگوار اور شیریں قرار دیا ہے، خوشگوار مال دیکھنے میں مرغوب اور شیریں مال چمک دمک میں پسندیدہ ہوتا ہے۔
جب یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں تو اس کے حصول کے لیے رغبت مزید بڑھ جاتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1472   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2532  
´اوپر والے ہاتھ (یعنی دینے والے) کی فضیلت کا بیان۔`
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا پھر آپ نے دیا، پھر مانگا، تو فرمایا: یہ مال سرسبز و شیریں چیز ہے، جو شخص اسے فیاضی نفس کے ساتھ لے گا تو اس میں برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہ ملے گی، اور اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے مگر آسودہ نہیں ہوتا (یعنی مانگنے والے کا پیٹ نہیں بھرتا)۔ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہات [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2532]
اردو حاشہ:
(1) سبز وشیریں سبز چارہ جانوروں کو بہت مرغوب ہوتا ہے اور میٹھی چیز عموماً انسانوں کو بہت پسند ہوتی ہے، اس لیے مال کو دو چیزوں سے تشبیہ دی گئی۔
(2) دل کی پاکیزگی۔ یعنی دل میں طمع اور لالچ نہ ہو اور نہ اس نے مانگا ہی ہو۔ یا دینے والے نے اسے خوشی سے دیا ہو، نہ کہ مجبوراً یا بغیر مانگے دیا ہو۔
(3) دل کے طمع وحرص۔ یعنی لینے والے کی یہ حالت ہو یا دینے والے نے طمع اور لالچ سے دیا ہو کہ مجھے زیادہ واپس ملے گا۔
(4) سیر نہیں ہوتا۔ کیونکہ دل غنی نہیں۔ دل غنی ہو تو تھوڑا بھی کافی محسوس ہوتا ہے ورنہ ڈھیر بھی مطمئن نہیں کر سکتے۔
(5) اوپر والا ہاتھ۔ یعنی دینے والا کیونکہ وہ بلند رہتا ہے۔ کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہوتا۔
(6) نیچے والے ہاتھ یعنی مانگنے والا۔ وہ حقیقتاً بھی دینے والے کے ہاتھ کے نیچے ہوتا ہے اور رتبے کے لحاظ سے بھی کم ہوتا ہے۔
(7) حدیث کا مقصود یہ ہے کہ انتہائی حاجت کے بغیر نہیں مانگنا چاہیے اور اگر خود بخود ملے تو پھر بھی دل میں حرص وطمع نہیں ہونا چاہیے اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو مانگنے سے رک جانا چاہیے بلکہ کسی کا دیا بھی قبول نہ کرے۔ اس میں عزت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2532   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2602  
´آدمی کا ایسی چیز مانگنا جس کے بغیر چارہ نہیں۔`
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: یہ مال ہری بھری اور میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے دل کی پاکیزگی کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت ملے گی، اور جو شخص اسے نفس کی حرص و طمع سے لے گا تو اس میں اسے برکت نہیں دی جائے گی۔ وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھائے لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ (جان لو) اوپر والا (یعنی دینے والا) ہاتھ نیچے والے (یعنی لینے وا [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2602]
اردو حاشہ:
برکت سے مراد یہ ہے کہ تھوڑا مال بھی کفایت کر جائے گا اور برکت نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ کثیر مال کے باوجود بھی وہ فقیر رہے گا۔ یا تو حقیقتاً کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناگہانی آفات طاری کرتا رہے گا جس سے مال ضائع ہوتا رہے گا یا ظاہراً کہ وہ فقیروں جیسا کردار ظاہر کرے گا، مثلاً: لوگوں کے مال پر نظر رکھے گا، وغیرہ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث: 2532)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2602   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2604  
´آدمی کا ایسی چیز مانگنا جس کے بغیر چارہ نہیں۔`
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اے حکیم! یہ مال میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے نفس کی فیاضی کے ساتھ لے گا تو اس میں اسے برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھائے تو لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ اور (جان لو) اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے وال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2604]
اردو حاشہ:
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اس قسم وعہد پر اس قدر پختہ رہے کہ بعد میں خلفائے راشدین انھیں بیت المال سے ان کا وظیفہ دیتے تو اسے بھی قبول نہ فرماتے۔ فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر فرمایا تھا: اے مسلمانوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) کی جماعت! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں لیکن وہ اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1472) اسی حال میں خالق حقیقی سے جاملے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2604   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2387  
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال مانگا تو آپﷺ نے مجھے عطا فرمایا: میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دے دیا۔ میں نے آپﷺ سے پھر سوال کیا تو آپﷺ نے مجھے عنایت کر دیا۔ پھر فرمایا: یہ مال سر سبز و شاداب ہے۔ (آنکھوں کو لبھانے والا ہے) اور شریں ہے (دلکش ہے) تو جو اسے نفس کی چاہت و طمع کے بغیر لے گا۔ اس کے لیے باعث برکت ہو گا۔ اور جو نفس کی حرص و... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2387]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان کے امتحان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مال کے اندر دو پہلو رکھے ہیں ظاہر کے اعتبار سے وہ آنکھوں کے لیے کشش کا باعث ہے انسان کی آنکھوں میں جچتا ہے اور باطنی اعتبار سے اس کے اندر شیرینی اور مٹھاس ہے۔
اس کی وجہ سے انسان کا دل اس کی طرف مائل ہوتا ہے یا دلکش اور دل فریب ہے اور انسان کے حق میں بہتریہی ہے وہ اپنی محنت اور کوشش سے کمائے مفت میں مال لینے کا حریص اور خواہش مند نہ ہو اگر کہیں سے اسی کی طلب و خواہش کے بغیر مل جائے تو اس کو لے کر آگے خرچ کردے مال کی حرص آرزو ایسی بھوک ہے جو کبھی مٹنے کا نام نہیں لیتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2387   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3143  
3143. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مال مانگا تو آپ نے مجھے عطا فرمایا۔ پھر میں نے دوبارہ مانگ تو اس مرتبہ بھی آپ نے عطا کیا اور ارشاد فرمایا: اے حکیم! یہ مال(دیکھنے میں) بہت دلربا اور شیریں ہے لیکن جو شخص اسے سیر چشمی سے لے تو اس کے لیے اس میں بہت برکت ہوگی اور جس نے حرص ولالچ سے اس لیا، اس کے لیے اس میں کوئی برکت نہیں ہے بلکہ وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اوپر والاہاتھ (دینے والا)نیچے والے ہاتھ(لینے والے) سے بہتر ہےہوتا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ نے (متاثر ہوکر) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کہ میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کو عطیہ دینے کے لیے بلایا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے انھیں مال عطیہ کرنے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3143]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت حکیم بن حزام ؓ نئے نئے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، آپ نے ان کی تالیف قلب کے لیے ان کو دو دو بار روپیہ دیا۔
بعد میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی سن کر حضرت حکيمؓ نے تاحیات اپنے وعدے کو نبھایا اوراپنا جائز حق بھی چھوڑدیا کہ کہیں نفس کو اس طرح مفت خوری کی عادت نہ ہوجائے۔
مردان حق ایسے ہی ہوتے ہیں۔
جو اس دنیا میں کبریت احمر کا حکم رکھتے ہیں۔
إلا ماشاءاللہ۔
آج کی دنیا میں جسے ایسی باتیں کرتا پاؤ اس کے اندر جائزہ لوگے تو معلوم ہوگا کہ یہی خود دنیا کا بدترین حریص ہے۔
إلا ماشاءاللہ۔
یہی حال بہت سے مدعیان تدین کا ہے جو ظاہر میں بڑے حق گو اور اندرون خانہ بدترین بدمعاملہ ثابت ہوتے ہیں۔
إلامن رحمه اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3143   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6441  
6441. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6441]
حدیث حاشیہ:
اوپر کا ہاتھ سخی کا ہاتھ اور نیچے کا ہاتھ صدقہ خیرات لینے والے کا ہاتھ ہے۔
سخی کا درجہ بہت اونچا ہے اورلینے والے کا نیچا۔
مگر آیت کریمہ ﴿لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى﴾ (البقرة: 264)
کے تحت معطی کا فرض ہے کہ دینے والے کو حقیر نہ جانے اس پر احسان نہ جتلائے نہ اور کچھ ذھنی تکلیف دے ورنہ اس کے صدقہ کا ثواب ضائع ہو جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6441   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2750  
2750. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر عطا فرمادیا۔ آخر کار آپ نے فرمایا: اے حکیم! دنیا کایہ مال (دیکھنے میں) خوشن اور (ذائقے میں) شیری ہے لیکن جو اس کو دل کی سخاوت اور سیر چشمی سے لے تو اسکے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو کوئی اسے طمع اور لالچ سے لے، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی۔ یہ اس شخص کی طرح ہے جو اسے کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں لوں گا حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2750]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام ؓ کو عطیہ قبول کرنے میں عدم رغبت کی طرف توجہ دلائی اور عطیہ لینے والے کے ہاتھ کو نچلا ہاتھ بتایا۔
وصیت بھی صدقے کی طرح ہے، اس لیے اسے قبول کرنے والے کا ہاتھ ید سفلی ہو گا جبکہ قرض کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
اس میں وصول کرنے والے کا ہاتھ نچلا نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی دی ہوئی رقم وصول کر رہا ہے، اس لیے اسے وصول کرنے کے لیے زبردستی کی جا سکتی ہے۔
اس اعتبار سے قرض، عطیے اور صدقے سے قوی ہے، لہذا اسے مقدم کرنا چاہیے۔
(2)
حضرت عمر ؓ نے ان کی حق دہی کے متعلق بہت کوشش کی اور قرض کی طرح انہیں اس کا حق دار قرار دیا۔
یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب قرض متعین ہو تو نفلی صدقہ کرنے سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2750   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3143  
3143. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مال مانگا تو آپ نے مجھے عطا فرمایا۔ پھر میں نے دوبارہ مانگ تو اس مرتبہ بھی آپ نے عطا کیا اور ارشاد فرمایا: اے حکیم! یہ مال(دیکھنے میں) بہت دلربا اور شیریں ہے لیکن جو شخص اسے سیر چشمی سے لے تو اس کے لیے اس میں بہت برکت ہوگی اور جس نے حرص ولالچ سے اس لیا، اس کے لیے اس میں کوئی برکت نہیں ہے بلکہ وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اوپر والاہاتھ (دینے والا)نیچے والے ہاتھ(لینے والے) سے بہتر ہےہوتا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ نے (متاثر ہوکر) عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا یہاں تک کہ میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کو عطیہ دینے کے لیے بلایا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے انھیں مال عطیہ کرنے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3143]
حدیث حاشیہ:

حضرت حکیم بن حزام ؓ فتح مکہ کے وقت نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی تالیف قلب کے لیے انھیں دوبارہ مال دیا بعد میں آپ کا وعظ سن کروہ اس قدر متاثر ہوئے کہ وعدہ کیا کہ آئندہ میں کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا۔
چنانچہ وہ تاحیات اپنے وعدے پر قائم رہے اور اپنا جائز حق بھی چھوڑدیا کہ کہیں نفس مفت خوری کا عادی نہ بن جائے۔

مؤلفہ القلوب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہوئے ہوں لیکن دلی طور پر کمزور ہوں اور اسلام ان کے دل میں ابھی پختہ نہ ہوا ہو یا ایسے غیر مسلم مراد ہیں جن کے اسلام لانے کی توقع ہو۔
رسول اللہﷺ ایسے حضرات کی مال خمس سے دلجوئی کرتے تھے اس حدیث سے بھی امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ خمس کا مال امام کی صوابدید پر موقوف ہے وہ جہاں چاہے اسے خرچ کرے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3143   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6441  
6441. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6441]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دنیا کے متعلق حرص، طمع اور لالچ سے خبردار کیا ہے کہ اس نیت سے جو مال حاصل ہو گا، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر و برکت نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو اس قسم کی طمع و لالچ سے بچاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو دنیا سے اسے اس طرح محفوظ رکھتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے جبکہ اسے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو۔
(مسند أحمد: 428/5) (2)
دراصل دنیا کی مال داری وہی بری ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے اور جس میں مشغول ہونے سے انسان کی آخرت کا راستہ کھوٹا ہو جائے، اس لیے اللہ تعالیٰ کو جن لوگوں سے محبت ہوتی ہے انہیں اس طرح مال سمیٹنے سے بچاتا ہے جس طرح ہم اپنے مریضوں کو پانی سے پرہیز کراتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6441   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.