ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا کہ مجھ سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد ابوحجیفہ نے، ان سے براء بن عازب نے اور ان سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے گئے، سورج غروب ہو چکا تھا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آواز سنائی دی۔ (یہودیوں پر عذاب قبر کی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی پر اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ اور نضر بن شمیل نے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی، ان سے عون نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ ابوحجیفہ سے سنا، انہوں نے براء سے سنا، انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1375
حدیث حاشیہ: (1) اس آواز کے متعلق تین احتمال ہیں: ٭ ملائکہ عذاب کی آواز تھی۔ ٭ یہودیوں کی آواز تھی جنہیں عذاب دیا جا رہا تھا۔ ٭ خود عذاب کی آواز تھی۔ چنانچہ طبرانی کی ایک روایت میں وضاحت ہے، حضرت ابو ایوب ؓ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غروب آفتاب کے بعد نکلا، میرے پاس پانی کا ایک برتن تھا، رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ واپس آئے تو میں نے آپ کو وضو کرایا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ”تو کوئی آواز سنتا ہے جیسے میں سن رہا ہوں؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں یہود کی آوازیں سن رہا ہوں جنہیں قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ “(المعجم الکبیرللطبراني: 120/4،121، حدیث: 3857، طبع دارإحیاءالتراث العربي، و فتح الباري: 306/3)(2) مصنف نے حسب عادت یہ ثابت کیا ہے کہ ایسے مواقع پر اللہ سے پناہ طلب کرنی چاہیے، نیز جب یہودیوں کے لیے عذاب قبر ثابت ہوا تو مشرکین کے لیے بھی ہو گا، کیونکہ ان کا کفر یہودیوں کے کفر سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ (3) مصنف نے اس حدیث کے بعد حضرت نضر کے حوالے سے اس کی ایک دوسری سند بیان کی ہے جس میں عون کی اپنی باپ سے اور ان کے باپ کی حضرت براء بن عازب ؓ سے تصریح سماع ہے۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی سند میں اس کا متن بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ یہود ہیں جنہیں قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1375